،تصویر کا ذریعہgettyimagesمضمون کی تفصیلمصنف, سمیع چوہدریعہدہ, کرکٹ تجزیہ کار25 اگست 2024راولپنڈی میں آج کل حبس کا عالم ہے۔ تو پھر اس رُت میں ایسی دھند کہاں سے امڈ آئی کہ شان مسعود کے پورے ڈریسنگ روم کو ہی اپنی لپیٹ میں لے گئی۔ اور جب یہ دھند چھٹی تو میچ کے اُس پار بنگلہ دیش تاریخ رقم کر چکا تھا۔شکست کیسی بھی ہو، تکلیف دہ ہوتی ہے مگر تاریخی طور پہ ہمیشہ خود سے کم تر رہ جانے والی ٹیم کے ہاتھوں شکست کی چبھن کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اور یہ امر اس چبھن میں مزید اضافہ کرتا ہے کہ یہ شکست پاکستان کو اپنے ہوم گراؤنڈ پہ ایسے بھاری مارجن سے ہوئی۔بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف پہلی بار کوئی ٹیسٹ میچ جیت کر اگر تاریخ رقم کی ہے تو پاکستان بھی پیچھے نہیں رہا اور اپنی ٹیسٹ تاریخ میں پہلی بار کسی مہمان ٹیم کے ہاتھوں دس وکٹوں کی شکست کھا کر اس نے بھی اپنی نئی تاریخ رقم کی ہے۔یہ الجھن گھنی ہے کہ مسلسل چار روز تک بے جان، بے کیف اور بالکل بے ضرر نظر آنے والی پچ پانچویں دن اچانک کیسے اتنی سبک رفتار ہو گئی کہ پاکستانی بلے بازوں کے ذہنوں پہ چھائی دھند مزید گہری کر ڈالی۔اعدادوشمار کے ماہرین اگرچہ اس شکست کی ایک سٹریٹیجک وجہ اس ڈیکلئریشن سے منسوب کر سکتے ہیں جو دوسری شام شان مسعود نے کی، جب پاکستان کے ہاتھ میں چار وکٹیں باقی تھیں اور وہ تیسری صبح کے سیشن تک چل کر 600 رنز بھی جوڑ سکتا تھا۔،تصویر کا ذریعہgettyimagesکرکٹ ماہرین اسے ٹیم سلیکشن سے جوڑ سکتے ہیں کہ راولپنڈی کی پچ پہ مکمل پیس اٹیک کے ہمراہ اترنا تزویراتی حماقت تھی اور سپیشلسٹ سپنر کو ٹیسٹ کرکٹ سے کبھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔مگر نہ تو وہ ڈیکلئریشن کا فیصلہ غلط تھا اور نہ ہی سپیشلسٹ سپنر کی غیر دستیابی ایسا حتمی فرق ثابت ہوئی۔ اس شکست کی تہہ میں چھپے اسباب کھوجنے کے لیے ان ظاہری مظاہر کے پردے کے پیچھے جھانکنا ضروری ہے۔محض دونوں ٹیموں کے ٹیسٹ کیلنڈر پہ ہی نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ذہنی و جسمانی لحاظ سے پانچ روزہ کرکٹ کا بوجھ ڈھونے کے لیے بنگلہ دیشی ٹیم شان مسعود کی اس ٹیسٹ ٹیم سے کہیں زیادہ تیار تھی جسے اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلے ہوئے ہی آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔پاکستانی بولرز پانچ روزہ کرکٹ کی اس ہمت طلب مشقت کے لیے تیار ہی نہ تھے جو راولپنڈی کے اس موسم میں دشوار تر تھی۔ یاد رہے کہ اس ٹیسٹ الیون کے پانچ کھلاڑی ایسے تھے جو حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی شرمناک کیمپین کے بعد پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے تھے۔ان کنڈیشنز کے ادراک میں جو سوجھ بوجھ نجم الحسن شانتو کی ٹیم نے دکھائی، پاکستانی ڈریسنگ روم اس کا نصف بھی نہ کر پایا۔جیسے بولرز دو دن تک بدحواسی میں لائن لینتھ ٹٹولتے رہے، ویسے ہی پاکستانی بلے بازوں نے بھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے بنگلہ دیشی سپنرز کا کام سہل کر دیا۔،تصویر کا ذریعہgettyimagesبنگلہ دیشی بولنگ کوچ مشتاق احمد کی رائے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ پانچویں دن کی اس پچ میں سپنرز کے لیے کچھ نہ کچھ مواقع ضرور تھے۔ لیکن وہ مواقع ایسے جان لیوا بھی نہ تھے کہ ایک مضبوط مڈل آرڈر کی حامل بیٹنگ لائن 150 کے مجموعے سے پہلے ہی ہانپ جاتی۔یہ کوئی بدحواسی دھند ہی تھی جو صائم ایوب پہ طاری ہوئی اور نئی گیند کے خلاف آف سٹمپ سے باہر یوں بلا لہرا دیا۔ پھر ان کے بعد شان مسعود نے بھی عین وہی عمل دہرا کر اپنے بلے بازوں کی زندگی اور دشوار کی۔بابر اعظم کو بھی پہلی ہی گیند پہ ملی خوش نصیبی راس نہ آئی اور وکٹ کے اطراف کھیلنے کی خواہش پویلین واپس لے گئی۔اپنے مختصر کرئیرز میں نہ تو کبھی عبداللہ شفیق ایسے غیر محتاط ہوئے کہ اچھی سپن کے خلاف یوں کریز کے باہر ڈگمگاتے پھریں اور نہ ہی سعود شکیل کبھی یوں بے دھیانی سے کریز چھوڑنے کے عادی ہیں مگر جب پاکستان کو ان دونوں کی اشد ضرورت تھی، تبھی ان کے قدم بھی لڑکھڑا گئے۔جس بمپر ہوم سیزن میں پاکستان سے اپنے وقار کی بحالی کی امید کی جا رہی تھی، اس کا آغاز ایسے قابلِ فراموش نقطے سے ہوا ہے کہ تین سال سے ہوم گراؤنڈز پہ فتح کی پیاسی ٹیم کا انتظار طویل تر ہو چلا ہے۔اب دوسرے ٹیسٹ سے پہلے میسر چار روز بھی اس ڈریسنگ روم کی نیندیں اڑائے رکھیں گے۔