،تصویر کا ذریعہReuters،تصویر کا کیپشنمحمد علی نے ٹوکیو کے بڈوکان ایرینا میں 14,500 شائقین کے سامنے جاپانی پہلوان انتونیو انوکی سے مقابلہ کیامضمون کی تفصیلمصنف, جیک جونزعہدہ, بی بی سی سپورٹس28 اگست 2024فلوائیڈ مے ویدر بمقابلہ کونور میک گریگر، فرانسس نگانو بمقابلہ ٹائسن فیوری یا پھر نیٹ ڈیاز بمقابلہ جیک پال۔ جدید دور میں کراس اوور باکسنگ یا جدید مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے ایک عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سب 1976 میں ایک ایسے مقابلے سے شروع ہوا جسے ’دو دنیاؤں کی جنگ‘ قرار دیا گیا تھا۔یہ 26 جون 1976 کا دن تھا جب اس وقت دو مرتبہ کے عالمی ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن محمد علی ٹوکیو کے بڈوکان ایرینا میں 14,500 شائقین کے سامنے جاپانی پہلوان انتونیو انوکی کا مقابلہ کرنے کے لیے اترے۔یہ ایک ایسا میچ تھا جو محمد علی کے ہسپتال جانے پر ختم ہوا اور مایوس ہجوم کی طرف سے اکھاڑے میں کوڑا کرکٹ تک پھینکا گیا۔لیکن یہ سب شروع ہونے سے پہلے، اس مقابلے سے امیدیں بہت زیادہ تھیں۔1975 میں محمد علی کو جاپانی امیچیور ریسلنگ ایسوسی ایشن کے صدر اچیرو ہاتھا سے ملوایا گیا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا کوئی دس لاکھ ڈالر کے لیے ان کا سامنا کرنے کو تیار ہو گا۔اس پیشکش پر جاپان میں شہ سرخیاں بنیں اور ملک کے مشہور پہلوان انوکی اور ان کے حمایتیوں نے محمد علی کو اس مقابلے کے لیے 60 لاکھ ڈالر کی پیشکش کی۔سپورٹنگ وٹنس پوڈ کاسٹ سے تعلق رکھنے والے شان آلسوپ نے ’دو دنیاؤں کی جنگ‘ قرار دیے جانے والے اس مقابلے کے بارے میں فوٹوگرافر کلاڈ چارلیئر سے بات کی جو اس وقت 23 برس کے تھے اور مقابلے کے وقت ٹوکیو میں رہتے تھے۔انھوں نے بتایا ’بڈوکان کے باہر بہت بڑی تعداد میں لوگ محمد علی اور انتونیو انوکی کی ایک جھلک دیکھنے کی امید میں جمع تھے۔‘مقابلے کے اکھاڑے کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’انوکی نے ہمیشہ کی طرح اپنا جامنی چوغہ پہن رکھا تھا۔ علی اچھلتے کودتے اور چلاّتے ہوئے آئے۔ آغاز میں سب کچھ کافی پرجوش تھا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images،تصویر کا کیپشنانوکی نے اس قانون کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے مطابق اگر علی فرش پر گرے ہوں تو وہ انھیں لاتیں مار سکتا تھاصرف آٹھ ماہ قبل تین مقابلوں کی آخری فائٹ میں جو فریزیئر کو شکست دینے والے محمد علی کے لیے یہ مقابلہ ایک موقع تھا کہ وہ نہ صرف دنیا کے عظیم باکسر بلکہ بہترین ایتھلیٹ کے طور پر اپنے دعوے کو سچ کر دکھائیں۔اصل منصوبہ ریہرسل کا تھا لیکن نمائشی میچ ایک حقیقی معرکہ بن گیا۔ تاہم، علی نے ٹوکیو میں انوکی کو تربیت لیتے دیکھا تھا اور خطرہ منڈلاتے دیکھ کر، نئے قوانین بنائے گئے۔چارلیئر کے مطابق ’انوکی نے مجھے کچھ دلچسپ بات بتائی۔ اس نے کہا، میرے خیال میں علی لڑائی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ صرف ایک شو ہے لیکن یہ شو نہیں ہے، ہم واقعی لڑنے جا رہے ہیں، اور میں اس کا بازو یا ٹانگ توڑ سکتا ہوں۔ انوکی ایک طاقتور لڑاکا تھا۔‘محمد علی کے نمائندوں کی طرف سے جن قوانین پر اتفاق کیا گیا ان کے بعد انوکی ٹیکلنگ، گریپلنگ نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی کھڑے ہو کر لات چلا سکتا تھا۔لیکن اس طرح انوکی کو ایک موقع یوں ملا کہ اگرعلی فرش پر گرے ہوں تو وہ انھیں لاتیں مار سکتے تھے۔ایرینا میں موجود شائقین کو ان قوانین کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا اور وہ اس وقت حیران رہ گئے جب انوکی نے میٹ پر گرے علی کی ٹانگوں پر لاتیں مارنی شروع کیں۔چارلیئر کے مطابق ’علی کے ساتھیوں نے انھیں انوکی سے دور رہنے کو کہا، کیونکہ وہ اسے واقعی تکلیف دینے والا تھا لیکن علی نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔‘’انوکی انھیں بار بار لاتیں مار رہے تھے، دوسرے راؤنڈ میں، پھر تیسرے راؤنڈ میں بھی یہیں صورتحال تھی۔ علی پاگل ہو گئے اور کہا میں سمجھتا تھا کہ تم ایک پیشہ ور پہلوان ہو۔ یہ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔‘چھٹے راؤنڈ میں انوکی علی کے پیر پکڑ کر انھیں زمین پر گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کچھ ایسا تھا جو آج کے مکسڈ مارشل آرٹس میں نظر آنے والے داؤ سے زیادہ مختلف نہیں۔چارلیئر کے مطابق ’دسویں راؤنڈ تک، علی بہت زیادہ درد میں تھے اور ان کی ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔‘بہت زیادہ شوروغل کے بعد 15 راؤنڈز کے بعد برابر پوائنٹس کی بنیاد پر مقابلہ برابر قرار دے دیا گیا۔چارلیئر بتاتے ہیں کہ اس موقع پر ہر کسی نے شور مچانا شروع کر دیا اور جس کے پاس جو کچھ تھا وہ پھینکنا شروع کر دیا۔ تکیے، خالی ڈبے یا کچھ بھی۔’لوگوں نے چیزیں پھینکیں کیونکہ وہ واقعی ناراض تھے۔۔۔ آپ اکھاڑے کے ساتھ بیٹھ کر مقابلہ دیکھنے کے لیے اس وقت تقریباً پانچ ہزار ڈالر دیں اور اس طرح کی لڑائی دیکھنے کو ملے، واقعی مناسب نہیں تھا۔‘علی کو اس مقابلے میں جہاں صرف چھ مکے مارے گئے وہیں 100 سے زیادہ لاتیں ماری گئیں۔اگرچہ ’وار آف دی ورلڈز‘ شائقین کے لیے زیادہ متاثر کن نہ رہی، کراس اوور باکسنگ، اور اس کے ساتھ آنے والی منافع بخش آمدنی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔