بچپن سے ہی لمبے بالوں کا شوق رکھنے والی پھوگاٹ کو کشتی کی وجہ سے بال چھوٹے رکھنے پڑے-یہ مئی سنہ 2003 کی بات ہے جب پھوگاٹ خاندان کی سب سے بڑی بیٹی گیتا نے کیڈٹ ایشین چیمپیئن شپ کے دوران پہلوانی میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔ یہ مہاویر پھوگاٹ کی تربیت سے ملنے والی پہلی بین الاقوامی کامیابی تھی۔دہلی سے ملحقہ ریاست ہریانہ کے پورے بلالی گاؤں نے ان کی جیت کا جشن منایا اور اس وقت مہاویر کے چھوٹے بھائی راج پال نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی وینیش کے لیے بھی ایسا ہی خواب دیکھا۔
21 سال بعد اب جبکہ پہلوان وینیش پھوگاٹ خواتین کی طاقت کی علامت بن چکی ہیں تو سنیچر کو پیرس اولمپکس سے واپسی پران کا کسی ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔وینیش کو پیرس اولمپکس میں ریسلنگ کے 50 کلوگرام وزن کے زمرے میں فائنل تک جانے والے تینوں مقابلے جیتنے کے باوجود فائنل سے پہلے 100 گرام زیادہ وزن ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا۔لیکن ہریانہ کیا، کسی بھی ریاست کے ایتھلیٹ حتیٰ کہ اولمپک چیمپیئن کا بھی ایسا شاندار استقبال نہیں ہوا۔ وینیش کے اعزاز میں ان کے ہزاروں مداحوں نے نئی دہلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ان کے گاؤں بلالی تک 120 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔
کیا راج پال نے اپنی بیٹی کے ایسے استقبال کا خواب دیکھا ہوگا؟وینیش نے جب بھی انڈیا کے لیے کامیابی حاصل کی تو اس کا سہرا ہمیشہ ان کے والد، والدہ پریم لتا اور تایا سے کوچ بننے والے مہاویر کو گیا جنھوں نے ان کے لیے ایک مختلف زندگی کا خواب دیکھا تھا۔خاندانی دباؤ اور بیماری کے باوجود انھوں نے اپنے خواب کو زندہ رکھا۔ ایسے چیمپیئن بنائے جن میں ہر موڑ پر مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ تھا۔راج پال تو اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کا گاؤں بلالی وینیش سمیت ساری پھوگاٹ بہنوں کی ہر جیت کا جشن مناتا آیا ہے۔
2012 کے لندن اولمپکس میں حصہ لینے والی پہلی انڈین خاتون ریسلر گیتا پھوگاٹ نے کہا: ‘وینیش صرف بلالی کی بیٹی نہیں ہے، بلکہ پورے ملک کی بیٹی ہے۔’خیال رہے کہ اداکار عامر خان نے فلم ’دنگل‘ میں مہاویر پھوگاٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ حال ہی میں انٹرنیٹ پر لوگ ان سے اس فلم کے پارٹ ٹو کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہPic by Samuel/Akhada،تصویر کا کیپشنمہاویر پھوگاٹ اپنی بچیوں کے ساتھگیتا کی جیت کا جشن دیکھنے کے بعد وینیش کے والد نے خواب دیکھامہاویر پھوگاٹ پر ایک کتاب ‘اکھاڑا’ کے لیے ایک انٹرویو میں وینیش پھوگاٹ نے کہا: ’جب میں پہلی کلاس میں تھی تو میں نے اپنے والد کو کھو دیا۔’وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ میں ایک چیمپیئن ریسلر بنوں۔ جب گیتا نے ایشین کیڈٹ کا خطاب جیتا اور گاؤں میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تو میرے والد نے کہا کہ وہ میرے لیے بھی یہی چاہتے ہیں۔
‘جب میں نے پرینکا اور ریتو کے ساتھ سنہ 2009 کی ایشین کیڈٹ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیتا تو ہمارے گاؤں میں ہمارا پرتپاک استقبال ہوا۔ اس وقت مجھے اپنے والد کی خواہش یاد آگئی۔’انھوں نے مزید کہا: ‘وہ جہاں بھی ہوں ہمیشہ میرے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور میں اپنی ہر جیت کے ساتھ ان کے خواب کو یاد کرتی ہوں۔’مہاویر کہتے ہیں کہ ‘پیرس اولمپکس میں وینیش کی کارکردگی قابل ستائش تھی۔’ وہ نام نہاد مردوں کی بالادستی والے کھیل ریسلنگ میں اکتوبر سنہ 2000 میں اپنے خاندان کی بیٹیوں کو اولمپکس میں لے کر آئے تھے۔انھوں نے کہا: ’یہ بدقسمتی تھی کہ وہ فائنل میں حصہ نہیں لے سکی، لیکن میرے لیے وہ ہمیشہ چیمپیئن رہے گی۔‘مہاویر کی طرح راج پال اپنی بیٹیوں کی بات کرتے وقت آگے کی سوچ رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان کبھی فرق نہیں کیا۔وینیش کہتی ہیں: ’جب ہماری ماں ہم سے گھر کا کام کرنے کو کہتی تھی، تو وہ ہمارے بھائی ہرویندر کو ڈانٹتے تھے۔’انھوں نے واضح کر دیا کہ ہمیں پوری توجہ ریسلنگ پر مرکوز کرنی ہوگی۔
اگر ہماری ماں کو مدد کی ضرورت ہوتی تو وہ ہرویندر کو بتا دیتیں، ہمیں نہیں۔’وینیش پرانے دن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‘سکول کے دوران، میں اکثر لڑکیوں اور یہاں تک کہ لڑکوں سے بھی لڑتی تھی۔ ہماری دادی نے ہمیں نصیحت کی کہ لڑائی شروع نہ کریں، لیکن اگر کوئی ہمیں پریشان کرے تو ہمیں ان کا سامنا کرنا چاہیے۔’چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، میں نے کبھی کسی کو دھونس نہیں جمانے دی، لڑائی جھگڑے اکثر ہوتے تھے۔ میرے والد کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کی لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں ہیں۔’ان کی موت کے بعد تایا نے ہمیں ایسے ہی پالا، انھوں نے ہمیں اپنے والد کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔‘،Saurabh Duggal،وینیش پھوگاٹ کے والد راج پال پھوگاٹ کی گولی لگنے سے موت ہو گئیوینیش نے اپنے والد کی موت کے بعد ان کے خواب کو زندہ رکھاوینیش کے والد 25 اکتوبر 2003 کو دیوالی سے ایک ہفتہ قبل کروا چوتھ کے تہوار کی رات فوت ہوگئے۔ اس تہوار پر انڈین خواتین اپنے شوہروں کی لمبی عمر کے لیے برت (روزہ) رکھتی ہیں۔
وینیش کی والدہ پریم لتا نے اپنے شوہر راج پال کی لمبی عمر کے لیے دعا کی لیکن کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے برت توڑنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ان کے شوہر ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔اس دن راج پال بلالی-دادری روٹ پر ہریانہ روڈ ویز کی بس چلاتے ہوئے اپنی ملازمت سے گھر لوٹے تھے۔ بلالی کی گلیوں میں روشنیاں نہیں تھیں، سورج ڈوبتے ہی رات نے اداسی کی چادر اوڑھ لی تھی اور اندھیرا چھا گیا تھا۔راج پال کا کزن جو ذہنی طور پر پریشان تھا اور اس کے بہت قریب تھا۔ اس نے راج پال کو اس وقت گولی مار دی جب وہ گھر کے باہر بیٹھے تھے۔کزن نے اچانک گولی مار دی، یہاں تک کہ تو دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ پہلی گولی راج پال کے سینے میں لگی اور دوسری گولی ان کے سر میں لگی جس سے وہ اسی جگہ فوت ہو گئے۔
وینیش کی والدہ پریم لتا کہتی ہیں: ’یہ میرا آخری کڑوا چوتھ تھا۔ میں برباد ہو چکی تھی۔’وہ مزید کہتی ہیں: ‘میرے شوہر کا جسم خون میں لت پت تھا اور اس وقت میری آنکھیں صرف اپنے بچوں کے چہرے دیکھ رہی تھیں۔’میں تباہ ہو گئی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا مقصد کھو گیا ہے، لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے بچوں کے لیے جینا ہے، ان کے سامنے ان کا پورا مستقبل ہے۔’وینیش اپنی ماں کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور انھیں عالمی معیار کا کھلاڑی بنانے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنا کبھی نہیں بھولتیں۔نوالد کی موت کے ایک سال بعد ماں کو کینسر کے مرض کی تشخیص ہوئیماں کو کینسر ہونے کے بعد وینیش کی زندگی بدل گئیایک سال بعد سنہ 2004 کے وسط میں پریم لتا کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئیں۔پریم لتا یاد کرتی ہیں: ‘وینیش کے والد کی موت کے بعد میری صحت خراب ہونے لگی۔ جب یہ بگڑنے لگی تو میں نے بھیوانی میں ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ معائنے کے دوران مجھے بچہ دانی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔
‘اکٹر نے مجھے بتایا کہ یہ پھیل گیا ہے اور میرے پاس صرف ایک یا دو سال باقی ہیں، اس وقت میرے بچے بہت چھوٹے تھے اور میں ان کے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھی۔ میں ان کے لیے جینا چاہتی تھی۔’پھوگاٹ خاندانوں کے علاوہ سنگوان خاندان والوں کا گاؤں میں اثر و رسوخ ہے۔ پھوگاٹ خاندان کے قریبی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہرویندر سانگوان جودھپور میں پڑھتے تھے۔ہرویندر نے پریم لتا کو جودھ پور میں کینسر کے شعبے کے سربراہ سے ملوایا۔پریم لتا نے کہا: ‘ہرویندر سانگوان ایک اچھے طالب علم تھا اور اساتذہ کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات تھے۔’جب اس نے مجھے ہیڈ ڈاکٹر سے ملایا تو ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں کتنے سال جینا چاہتی ہوں۔
میں نے جلدی سے جواب دیا ‘پانچ سال’۔ میں نے ان سے کہا کہ تب تک میرے بچے اتنے بڑے ہو جائیں گے کہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں۔”ڈاکٹر نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تم اپنے بچوں کے ساتھ رہو گی۔ اس ڈاکٹر اور بھگوان کا شکریہ، میں اب بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہاں ہوں۔’اس ملاقات کے اگلے مہینے سے پریم لتا نے بلالی سے تقریباً 75 کلومیٹر دور روہتک کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں باقاعدہ کیموتھراپی کروائی۔انھوں نے کہا: ‘جودھ پور میں ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ مجھے چار ہفتوں کی کیموتھراپی کی ضرورت ہے۔ ہرویندر سانگوان مجھے پہلے دو سیشنز کے لیے روہتک لے گئے، لیکن اس کے بعد میں نے اکیلے ہی سفر کیا۔’انھوں نے کہا کہ ‘کبھی بھی اپنے بچوں کی تعلیم میں خلل نہیں ڈالنا چاہتی تھی، اس لیے میں خود چلی جاتی تھی۔’میری صرف یہ خواہش تھی کہ وہ کھیلوں میں کامیاب ہوں اور وہ کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ سب مہاویر کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔اگر وہ لڑکیوں پر سخت نہ ہوتے تو مجھے نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی بھی وہ حاصل کر پاتی جو آج ان کے پاس ہے۔’پریم لتا اور ان کی دو بہنیں دیا کور اور نرملا کی شادی پھوگاٹ خاندان میں ہوئی تھی۔ بڑی بہن دیا مہاویر کی بیوی ہے اور چھوٹی نرملا کی شادی ان کے سب سے چھوٹے بھائی سجن سے ہوئی ہے۔ چنانچہ مہاویر کا تعلق ماں اور باپ دونوں طرف سے راج پال کے بچوں سے ہے۔،کشتی کی وجہ سے بال کاٹنے پڑےوینیش اور پیرس میں ان کی ٹیم نے ان کا وزن کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، یہاں تک کہ کچھ اضافی گرام کم کرنے کے لیے ان کے بال بھی کاٹے گئے۔کھیل میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران وینیش نے ہمیشہ لمبے بال رکھنے کا خواب دیکھا۔ بلوغت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی عمر کی لڑکیوں کی طرح اپنے بال لمبے کرنا چاہتی تھی۔
تاہم مہاویر پھوگاٹ، جو کہ ایک سخت ٹاسک ماسٹر رہے ہیں، نے اپنے تمام چھ تربیت پانے والوں کے لیے سخت اصول وضع کر رکھے ہیں۔ ان چھ میں سے چار ان کی اپنی بیٹیاں (گیتا، ببیتا، ریتو اور سنگیتا) اور دو بھتیجیاں (ونیش اور پرینکا) شامل ہیں۔مہاویر کے لیے کشتی ایک دیہی کھیل تھا جو ثقافت میں گہرائی سے پیوستہ تھا اور کچھ روایات کی پیروی کرنی پڑتی تھی۔ یہ کم خرچ بھی تھا۔وینیش یاد کرتی ہیں: ‘سنہ 2015 میں میں پانچ مہینے تک کیمپ میں تھی، جبکہ تایا باہر تھے۔ میرا صرف ایک ہی خواب تھا کہ لمبے بال ہوں، فینسی نہ ہوں، صرف لمبے بال اور خدا کا شکر ہے مجھے کیمپ میں ایسا کرنے کا موقع ملا۔”جب گھر جانے کا وقت آیا اور ہم کیمپ سے نکلے تو میرے بال کندھے کی لمبائی کے تھے۔
مجھے امید تھی کہ تایا جی اعتراض نہیں کریں گے۔’جب ہم نے دوبارہ تربیت شروع کی تو انھوں نے پہلے دو یا تین سیشنز تک میرے بالوں کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ لیکن میں جانتی تھی کہ یہ خاموشی طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔’تیسرے دن شام کے سیشن میں آخرکار انھوں نے مجھ سے میرے لمبے بالوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے سر نیچے رکھا اور خاموش رہی، حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔’انھوں نے صرف پوچھا اور آخرکار مجھے اپنے بال لمبے کرنے کی اجازت مل گئی، جو میں ہمیشہ چاہتی تھی۔’مہاویر پھوگاٹ نے کہا: ’میرا اولمپک تمغے کا خواب ابھی بھی ادھورا ہے۔ لیکن وینیش نے کھیل کے لیے جو کیا وہ بے مثال ہے، اور پیرس میں ان کی کارکردگی کو اولمپک پوڈیم پر جانے سے بہتر چیز کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس نے پورے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔’