،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمضمون کی تفصیلمصنف, سمیع چوہدریعہدہ, کرکٹ تجزیہ کار3 ستمبر 2024ہر بار جب پاکستانی کرکٹ زوال کا کوئی نیا سنگِ میل عبور کرتی ہے، شائقین اک حقیقت پسندانہ خوش فہمی کا شکار ہو رہتے ہیں کہ اب یہ ٹیم مزید نیچے نہیں گر سکتی کیونکہ زوال کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس سے پست صرف پاتال ہے۔مگر راولپنڈی میں شان مسعود کی اس ٹیم نے ثابت کر دکھایا کہ زوال کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس نے یہ ممکن کر دکھایا کہ دوسری وکٹ کے لیے 100 سے زیادہ رنز کی پارٹنرشپ لگنے کے بعد بھی باقی ماندہ نو وکٹیں کوئی 150 رنز کے لیے گنوائی جا سکتی ہیں۔اس ٹیم نے یہ ثابت کر دکھایا کہ مخالف بیٹنگ لائن کی اوپری چھ وکٹیں محض 26 رنز کے عوض حاصل کر کے بھی باقی ماندہ 4 وکٹوں کے عوض لگ بھگ 250 رنز دیے جا سکتے ہیں، اپنی ساری برتری ہنستے کھیلتے لُٹائی جا سکتی ہے اور فالو آن سے ڈرتی ٹیم کو ایسی کلین سویپ کا موقع دیا جا سکتا ہے۔اس ٹیم نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اس کے بلے باز اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوئی توفیق نہیں رکھتے۔ کوئی بلے باز اپنی تکنیک پر نظرِ ثانی کو آمادہ نہیں اور بھلے وکٹ سر سبز ہو، بھلے بنجر، یہ بلے باز کسی ایڈجسٹمنٹ کو توجہ کے لائق نہیں سمجھتے، ہمیشہ اپنی ہی ’گیم‘ کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس ٹیم نے ثابت کر دکھایا کہ اپنی پوری کرکٹ تاریخ میں ہمیشہ بہترین فاسٹ بولرز اور حیران کن سپنرز پیدا کرنے کی شہرت رکھنے والے ڈومیسٹک ڈھانچے کا بھرکس نکل چکا ہے اور ایسے بولرز کی فصلیں پیدا کرنے والے کھیت بنجر ہو چکے ہیں۔اس ٹیم نے ثابت کر دکھایا کہ اس کے پاس آل راؤنڈرز نامی کوئی جنس موجود نہیں اور اگر اس کا اکلوتا فاسٹ بولنگ آل راؤنڈر بیمار پڑ جائے تو اس کا کوئی متبادل موجود نہیں۔ رہی بات سپن بولنگ آل راؤنڈر کی، تو اسے کبھی یہاں ایسا ضروری سمجھا ہی نہیں گیا۔اس ٹیم نے یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ بھلے بولنگ کے لیے سازگار ہری بھری پچ میسر آ جائے، اس کے پیسرز کی اوسط رفتار 130 کلومیٹر فی گھنٹہ ہی رہے گی اور اگر کنڈیشنز ریورس سوئنگ کے لیے موافق نہ ہوں تو یہ بولنگ اٹیک پرانی گیند کے ساتھ دربدر بھٹکتا، نئی گیند کی راہ تکتا رہے گا۔یہ پاکستان کرکٹ کے لیے محض شرم کا مقام ہی نہیں کہ پونے چار سال سے اپنے ہوم گراؤنڈز پر کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیت پائی بلکہ یہ جائے عبرت ہے کہ جو بنگلہ دیشی ٹیم آج تک اس سے ایک بھی ٹیسٹ میچ نہ جیت پائی تھی، آج وہ اسے اس کے اپنے گھر میں وائٹ واش کر گئی۔،تصویر کا ذریعہ@TheRealPCBمگر کیا یہ سب صرف ان گیارہ کھلاڑیوں کا کیا دھرا ہے جو ندامت میں سر جھکائے آج راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم سے لوٹ رہے ہیں؟ کیا اس کے ذمہ دار وہ پی سی بی سربراہان نہیں جو محض سیاسی رسوخ کی بنا پر اس کرکٹ کلچر کے نگہبان بن جاتے ہیں اور پھر اپنی خود نمائی کے شوق میں وہ فیصلے صادر کرتے ہیں جو ان کے پسندیدہ صحافتی حلقوں کو راس آ سکیں؟پچھلی ایک دہائی میں فقط تین سال کے لیے پی سی بی میں کچھ استحکام آیا جب احسان مانی اور وسیم خان نے ڈومیسٹک ڈھانچے میں سدھار کی کوشش کی اور انگلش ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے ایک ماڈرن کوچنگ سیٹ اپ سے نوجوان ٹیم بنانے کی کوشش کی۔مگر طویل ریاضت کے بعد جیسے ہی وہ ٹیم ٹریک پر آنے لگی، ایک اور چیئرمین آ دھمکے جو خود سابقہ کرکٹر اور موجودہ مبصر تھے۔ انھوں نے آتے ہی اس برانڈ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کوڑے دان میں ڈال دیا جس کی تعمیر میں تین سال لگے تھے اور جس کی تازہ کامیابی تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز کلین سویپ کرنا تھی۔تو پھر کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اسی ناپسندیدہ برانڈ کا جنوبی افریقہ کے خلاف جیتا ہوا آخری ٹیسٹ میچ پونے چار سال میں پاکستان کی آخری ہوم وکٹری ہے۔ اس کے بعد پی سی بی کو چار نئے سربراہان ملے، چھ نئے ہیڈ کوچز ملے، چھ سات چیف سلیکٹر بھی ملے مگر زوال کی کوئی حد ابھی تک طے نہیں ہو پائی۔