،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمضمون کی تفصیلمصنف, سمیع چوہدریعہدہ, کرکٹ تجزیہ کار29 اگست 2024افغانستان کے خلاف ڈیتھ اوورز میں جب آصف علی اور افغان بولر کے درمیان لفظی جنگ چھڑی اور اس کے بعد نسیم شاہ نے دو چھکے لگا کر پاکستان کو ہدف کے پار پہنچایا تو نسیم شاہ کی وہ ’سیلیبریشن‘ بجا طور پر وائرل ہو گئی۔وہ وائرل ویڈیو محض نسیم شاہ کے دو چھکوں اور پاکستان کی جیت کا جشن نہیں تھا بلکہ وہ ٹیم کے اس کلچر کی عکاسی تھی جہاں کھلاڑی ایک دوسرے کی اور اپنی ٹیم کی آبرو کے لیے لڑتے نظر آ رہے تھے۔ اس ویڈیو کا پیغام تھا کہ ٹیم متحد ہے۔بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں تاریخی شکست نے تو پاکستان کی آبرو کو جو ٹھیس پہنچائی سو پہنچائی مگر اس میچ کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل سی ہوئی پھرتی ہے جس کا پیغام ہرگز یہ نہیں کہ ٹیم متحد ہے۔پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف فیلڈنگ کے لیے میدان میں اترتی ہے اور روایتی طور پر، سبھی کھلاڑی ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر گول دائرے میں ’ہڈل‘ بناتے ہیں۔ کپتان کے اردگرد دو سینیئر کھلاڑی ہیں جن کے چہرے کے تاثرات بہت جاذبِ نظر نہیں۔جبکہ ایک سینیئر کھلاڑی کپتان کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر ناگواری سے برداشت کرتے ہیں تو دوسرے سینیئر کھلاڑی چند ہی لمحوں بعد کپتان کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹک دیتے ہیں۔ جس انداز سے یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ ڈریسنگ روم کے ماحول کی مکمل عکاسی کر چھوڑتا ہے۔’چک دے انڈیا‘ سپورٹس ڈرامہ صنف کی بہترین فلموں میں سے ہے، اس کا ایک سین اپنے اختصار کے باوجود اس قدر جامع ہے کہ ٹیم بلڈنگ کی مکمل سائنس کو ایک جملے میں سمو کر رکھ دیتا ہے جہاں کوچ شاہ رخ خان قیادت سے محرومی کے بعد باغی ہوئی سینیئر کھلاڑی کو مخاطب کرتے ہیں کہ ’ہر ٹیم میں صرف ایک ہی غنڈہ ہو سکتا ہے اور اس ٹیم کا غنڈہ میں ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہAFPیہ بھی پڑھیےمذکورہ وائرل ویڈیو میں جو تین مرکزی کردار ہیں، وہ تینوں ہی کپتان ہیں۔ شان مسعود موجودہ کپتان ہیں جبکہ دوسرے دونوں کھلاڑی ماضی قریب کے کپتان ہیں۔ جب ایک ہی ٹیم میں تین چار کپتان اور تین چار کپتانی کے امیدوار اکٹھے ہو جائیں تو بنگلہ دیش جیسی ٹیم کا یوں پاکستان کو دھول چٹا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔سو اگر پاکستانی ڈریسنگ روم میں معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ کھلاڑی کیمروں کے سامنے ’ٹیم آپٹکس‘ کو بھی کسی شمار میں نہیں لا رہے تو اس ٹیم کو واقعی کسی ’میجر سرجری‘ کی ضرورت ہے جس کے بعد سب پر یہ واضح ہو رہے کہ اس ٹیم کا ’غنڈہ‘ کون ہے۔ملک کی قیادت کرنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیادت چھن جانے کے بعد متعلقہ فرد کے لیے کسی ایسے کھلاڑی کے نیچے کھیلنا مشکل ہوتا ہے جسے وہ اپنی ٹیم میں شمولیت کے بھی قابل نہ سمجھتا ہو۔مگر کیا قیادت کی یہ تبدیلیاں دیگر کرکٹنگ اقوام میں نہیں ہوتیں؟ کیا گنگولی، ڈریوڈ اور ٹنڈولکر سبھی یکے بعد دیگرے کپتان بننے اور پھر سبکدوش ہونے کے بعد ایک دوسرے کی قیادت میں نہیں کھیلے؟ کیا وراٹ کوہلی دو سال سے روہت شرما کی قیادت میں نہیں کھیل رہے؟پچھلے سال آسٹریلیا نے ون ڈے انٹرنیشنل ورلڈ کپ جیتا اور کچھ ہی عرصے بعد فاتح کپتان پیٹ کمنز کو بتایا گیا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں وہ کپتان نہ ہوں گے بلکہ انھیں مچل مارش کی قیادت میں کھیلنا ہو گا۔ کیا یہ بات ہضم کرنا پیٹ کمنز کے لیے آسان رہی ہو گی؟لیکن کیا پیٹ کمنز بھی کہیں ورلڈ کپ میں مچل مارش کا ہاتھ جھٹکتے نظر آئے؟ کیا مارش کے فیلڈنگ سیٹ کرتے وقت کبھی کمنز کے چہرے کے تاثرات بگڑے کہ انھیں ان کی پسندیدہ پوزیشن پر کھڑے کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا؟،تصویر کا ذریعہGetty Imagesجو ردِعمل ایک سینیئر کھلاڑی نے اپنے پاکستانی کپتان کو دیا، اسے فطری انسانی ردِعمل کے پردے میں ملفوف کرنا بھی ممکن نہیں اور نہ ہی ٹیم انتظامیہ کو اس کلچر کے لیے کوئی گنجائش پیدا کرنی چاہیے کہ جہاں قومی کرکٹ کا چہرہ دنیا بھر کے سامنے یوں نظر آئے۔جہاں فکر طلب پہلو یہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستانی بولنگ کو تیسری نئی گیند تک بنگلہ دیشی بلے باز کیوں جھیلنا پڑے اور دوسری اننگز میں پاکستانی بلے بازوں کے دماغ دھند آلود کیسے ہوئے، وہاں یہ ویڈیو سب سے بڑی الجھن بن کر سامنے آ جاتی ہے اور صاف بتاتی ہے کہ اس ٹیم کا مستقبل کس سمت جا رہا ہے۔بھلے اس ٹیم کو آسٹریلوی کوچز لا دیے جائیں، بھلے انھیں دنیا بھر کے ایلیٹ ٹرینرز فراہم کر دیے جائیں، بھلے ان کے سینٹرل کنٹریکٹ انڈین کرکٹرز کے برابر کر دیے جائیں، یہ ٹیم پھر بھی عالمی معیار کی نہیں بن سکتی جب تک اس کے کھلاڑی یہ بنیادی نکتہ نہ سمجھ پائیں کہ ملکی آبرو کے سامنے ذاتی انا بہت حقیر شے ہے۔دوسرے ٹیسٹ میچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پچ سبز ہو گی یا سرمئی مائل نیلگوں، پیسر چار کھیلیں گے یا ایک سپیشلسٹ سپنر بھی ہو گا، ٹاس پاکستان جیتے گا یا بنگلہ دیش، جب تک اس ڈریسنگ روم کا بنیادی ڈسپلن واپس نہیں آتا، یہ ٹیم یوں ہی اندھیری کھائیوں کے راستے بھٹکتی رہے گی۔