،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمضمون کی تفصیلمصنف, سمیع چوہدریعہدہ, کرکٹ تجزیہ کار23 اگست 2024غیر ملکی دوروں پہ نکلی ٹیمیں چونکہ میزبان ممالک کی کنڈیشنز سے کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتیں، سو کسی بھی وینیو کا مزاج سمجھنے کو وہ متعلقہ میدان کے گزشتہ میچز کے ڈیٹا پر بھروسہ کیا کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش نے بھی یہی کیا۔میچ سے دو روز پہلے جب نجم الحسن شانتو کا سکواڈ ٹریننگ کے لیے راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں اترا تو ان کے سپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کا خیال تھا کہ پاکستان کی ٹیم سلیکشن اور گرین ٹاپ پچ کے بارے دعووں کے برعکس یہ پچ فلیٹ ہو گی جہاں بلے بازی آسان رہے گی اور بولرز کے صبر کا امتحان دو چند۔لیکن اگر نجم الحسن شانتو اس خیال سے متفق ہوتے تو انھیں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنا چاہیے تھی تا کہ چوتھی اننگز میں ان کے سپنرز فیصلہ کن ثابت ہو پاتے۔ مگر بنگلہ دیشی تھنک ٹینک کا ذہنی خلجان عجب رہا کہ اس پچ کو سیمرز کے لیے سازگار سمجھتے ہوئے پہلے بولنگ کا فیصلہ کر ڈالا۔تسکین احمد مختصر فارمیٹ میں بنگلہ دیش کے کامیاب ترین بولرز میں سے ایک رہے ہیں مگر سات سالہ طویل ٹیسٹ کرئیر میں فقط 13 میچ کھیلنے کے سبب ان کا ٹیسٹ ریکارڈ خاطر خواہ نہیں ہے۔ گو وہ اس سکواڈ کا حصہ ہیں مگر پہلے ٹیسٹ کے لیے دستیاب نہ تھے۔لیکن تسکین کی عدم دستیابی میں بھی بنگلہ دیش کے پاس چار سیمرز کے ساتھ اٹیک کرنے کی سہولت موجود تھی۔ نجم الحسن شانتو نے مگر مہدی حسن معراج کی سپن کو چوتھے سیمر پہ ترجیح دی اور یہ فیصلہ مہمان ٹیم کے لیے زیادہ موثر ثابت نہ ہو پایا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesنئی گیند کے ہمراہ شورف الاسلام اور حسن محمود کی بولنگ عمدہ رہی۔ نم آلود کنڈیشنز اور گزشتہ رات کی بارش نے بھی اس پچ کو سیمرز کے لیے موافق کر دیا تھا اور بنگلہ دیشی پیس اٹیک نے ابتدا میں ہی پاکستانی ٹاپ آرڈر کو چکرا کر رکھ دیا۔عبداللہ شفیق، شان مسعود اور بابر اعظم کی کلیدی وکٹیں نہایت سستے داموں حاصل کرنے کے باوجود شانتو لاجواب رہے کہ جب دونوں پیسرز حبس آلود کنڈیشنز میں اپنے پہلے سپیل کی تھکن سے دوچار ہوئے، تب ان کے پاس ایسا کوئی فاسٹ بولنگ آپشن نہیں تھا جسے نوجوان پیسر ناہید رانا کی ناتجربہ کاری کے ہمرکاب کر سکتے۔یہ بھی پڑھیےمہدی حسن معراج کے پہلے اوور نے ہی پاکستانی بلے بازوں کا جمود توڑ ڈالا اور سکور کارڈ یوں رواں دواں ہوا کہ اس کے بعد تمام فکریں پاکستان کے سر سے ٹل کر بنگلہ دیشی کیمپ پر سایہ فگن ہو رہیں۔سعود شکیل ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی حیثیت پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں اور نائب کپتانی کی اضافی ذمہ داری نے گویا ان کے ہنر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ محمد رضوان کے ہمراہ ان کی ساجھے داری نے بنگلہ دیشی بولرز کو تھکن سے چُور کر ڈالا جو پہلے ہی چوتھے سیمر کی غیر موجودگی سے پریشان کن حالات میں تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesجس انہماک اور ارتکاز سے ان دونوں بلے بازوں نے پاکستانی اننگز آگے بڑھائی، ایک مرحلے پر یہ گمان ہونے لگا کہ شاید یہ پاکستانی اننگز کبھی تمام نہ ہو گی۔ اور پھر کچھ ایسا ہی ہونے کو تھا مگر شان مسعود نے گویا بنگلہ دیشی بولرز پہ مہربانی کرتے ہوئے اننگز ڈیکلئیر کر دی۔لیکن اب فکرمندی محض بنگلہ دیش کے حصے نہیں رہے گی کہ قریب تین دہائیوں میں پہلی بار اسپیشلسٹ سپنر کے بغیر کھیلنے والے پاکستانی بولنگ اٹیک کو جو پچ میسر ہے، اس میں سیمرز کے لیے تائید نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے روز کے پہلے سیشن میں جو بچی کھچی گھاس ہری نظر آ رہی تھی، دوسرے دن کی تیز دھوپ نے اس کی ہریالی اڑا چھوڑی ہے۔اب سارا امتحان پاکستانی پیسرز کا ہے کہ وہ ایک بے جان پچ سے کس قدر سر پٹخ سکتے ہیں اور اس دوران کتنے ڈسپلن اور صبر سے کام لے سکتے ہیں۔ کیونکہ بنگلہ دیشی ٹاپ آرڈر اگر اپنی مزاحمت برقرار رکھ پایا تو مومن الحق، شکیب الحسن اور مشفق الرحیم پر مشتمل تجربہ کار مڈل آرڈر پاکستانی تھنک ٹینک کو اپنی ٹیم سلیکشن بارے سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔