یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس سے ہر کوئی محبت کرتا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ اس سے شادی کون کرے گا؟
کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان نے اپنے والد سے کہا: “میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، جسے میں نے دیکھا ہے اور جس کے حسن و خوبصورتی اور دلکش آنکھوں نے مجھے مسحور کر دیا ہے۔”
والد خوشی سے مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں: “کہاں ہے وہ لڑکی، تاکہ میں تمہارے لیے اس کا رشتہ مانگوں؟”
جب وہ دونوں لڑکی کو دیکھنے جاتے ہیں تو والد بھی اس کے حسن سے متاثر ہو جاتا ہے اور اپنے بیٹے سے کہتا ہے: “سن بیٹا، یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے، تم اس کے قابل نہیں ہو۔ یہ تو ایک ایسے آدمی کے لیے ہے جو زندگی کا تجربہ رکھتا ہو اور جس پر بھروسہ کیا جا سکے، جیسے میں۔”
لڑکا اپنے والد کی بات سن کر حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: “نہیں، میں اس سے شادی کروں گا، نہ کہ آپ۔”
پھر وہ دونوں جھگڑتے ہوئے پولیس اسٹیشن چلے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔ جب انہوں نے پولیس افسر کو اپنی کہانی سنائی تو افسر نے کہا: “لڑکی کو بلاؤ، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس کو چاہتی ہے، بیٹے کو یا والد کو؟”
جب افسر نے لڑکی کو دیکھا اور اس کے حسن سے متاثر ہوا، تو اس نے کہا: “یہ تم دونوں کے لیے مناسب نہیں، یہ تو میرے جیسے کسی اہم شخص کے لیے ہے۔”
اب تینوں میں جھگڑا ہوتا ہے اور وہ وزیر کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وزیر لڑکی کو دیکھتے ہی کہتا ہے: “یہ لڑکی تو صرف وزیروں کے لائق ہے، جیسے میں ہوں۔”
اسی طرح ان میں جھگڑا ہوتا رہا اور معاملہ امیرِ شہر تک پہنچ گیا۔ جب امیر نے لڑکی کو دیکھا، تو اس نے کہا: “یہ مسئلہ میں حل کرتا ہوں، لڑکی کو لاؤ۔”
لڑکی کو دیکھ کر امیر بھی کہنے لگا: “یہ تو صرف کسی امیر ہی سے شادی کر سکتی ہے، جیسے میں ہوں۔”
پھر سب نے بحث کی، تو لڑکی نے کہا: “میرے پاس ایک حل ہے۔ میں دوڑوں گی اور تم سب میرے پیچھے دوڑو گے، جو بھی پہلے مجھے پکڑے گا، میں اسی کی بن جاؤں گی اور اس سے شادی کروں گی۔”
لڑکی دوڑی اور پانچوں یعنی نوجوان، والد، پولیس افسر، وزیر اور امیر سب اس کے پیچھے دوڑے۔ اچانک دوڑتے دوڑتے پانچوں ایک گہری کھائی میں جا گرے۔
لڑکی اوپر سے انہیں دیکھ کر کہتی ہے: “کیا تمہیں معلوم ہوا میں کون ہوں؟ میں دنیا ہوں!!!
میں وہ ہوں جس کے پیچھے ہر انسان دوڑتا ہے، اور اپنی آخرت اور دین کو بھول جاتا ہے۔ وہ سب میری تلاش میں لگے رہتے ہیں، یہاں تک کہ قبر میں جا گرتے ہیں، اور پھر بھی مجھے حاصل نہیں کر پاتے۔”
کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے دین اور آخرت پر توجہ دیں، کیونکہ دنیا فانی ہے اور ہمیں کبھی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی