ارشد ندیم کا اولمپک ریکارڈ اور 90 میٹر کلب: نوے میٹر دور جیولن پھینکنے میں خاص کیا ہے اور ارشد ندیم کی ریکارڈ تھرو اتنی غیر معمولی کیوں تھی؟

0
18
ارشد ندیم کا اولمپک ریکارڈ اور 90 میٹر کلب: نوے میٹر دور جیولن پھینکنے میں خاص کیا ہے اور ارشد ندیم کی ریکارڈ تھرو اتنی غیر معمولی کیوں تھی؟ - BBC News اردو

  جب پاکستان کے سٹار ایتھلیٹ ارشد ندیم کے ہاتھ سے نکلی جیولن ہوا کو چیرتی ہوئی 90 میٹر کا فاصلہ عبور کر گئی تو کمنٹیٹر کی آواز بھی بتدریج بلند ہو گئی اور اس میں حیرت بھی عیاں تھی۔جیولن تھرو ایونٹ میں 90 میٹر کا فاصلہ عبور کرنا کسی بھی ایتھلیٹ کے لیے ایک خواب تصور کیا جاتا ہے اور ایسا اب تک جیولن کی ماڈرن تاریخ میں صرف 24 ایتھلیٹس ہی کر سکے ہیں۔جیولن تھرو کے بارے میں آج سے چند برس پہلے تک پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے تھے مگر ارشد ندیم کی جانب سے عالمی مقابلوں میں تسلسل کے ساتھ شرکت نے گذشتہ چند برس میں اب اس کھیل میں دلچسپی میں بتدریج اضافہ کر دیا ہے۔

جب جمعرات کی اس تاریخی شام کو پیرس میں ارشد ندیم نے 90 میٹر سے زائد تھرو کر کے اولمپکس ریکارڈ قائم کیا تو ایسا انھوں نے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ یعنی اپنی آخری تھرو میں بھی کیا۔پیرس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والے پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے کہا تھا کہ جیسے ہی نیزہ ان کے ہاتھ سے نکلا انھیں پتا چل گیا تھا کہ یہ تھرو 90 میٹر سے زیادہ دور جائے گی۔انھیں اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتانے والی ایک تھرو 92.97 میٹر جبکہ دوسری 91.79 میٹر کے فاصلے تک گئی اور یوں انھوں نے 2008 میں بنایا گیا 90.57 میٹر کا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔

اگرچہ یہ ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی ہے تاہم یہ پہلا موقع نہیں کہ انھوں نے 90 میٹر کی حد عبور کی ہو۔ سنہ 2022 کی کامن ویلتھ گیمز میں ارشد نے 90.18 میٹر تھرو کے ساتھ ایک نیا ریکارڈ بنایا تھا اور وہ 90 میٹر تک تھرو کرنے والے جنوبی ایشیا کے پہلے ایتھلیٹ بن گئے تھے۔دوسری جانب ان کے حریف انڈیا کے نیرج چوپڑا گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل ارشد سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں لیکن آج تک وہ ایک مرتبہ بھی 90 میٹر تک تھرو نہیں کر پائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جیولن مقابلوں میں 90 میٹر کی حد عبور کرنے کی اتنی اہمیت کیوں ہے اور ہر ایتھلیٹ 90 میٹر سے دور تھرو کیوں نہیں کر پاتا؟1986 میں جب سے جیولن کو دوبارہ ڈیزائن کیا گیا، تب سے ارشد ندیم سمیت دنیا کے صرف 24 ایتھلیٹس ہی اس ’90 میٹر ایلیٹ کلب‘ کا حصہ بن پائے ہیں جنھوں نے 125 مرتبہ 90 میٹر کی حد پار کی ہے۔ ان میں سے صرف تین تھروز اولمپکس میں ہوئی ہیں۔

بی بی سی نے ارشد ندیم کے سابقہ کوچز فیاض حسین بخاری (جنھوں نے آٹھ سال تک ارشد کو ٹرین کیا) اور رشید احمد ساقی (جن کا ان کے کرئیر میں بہت اہم کردار رہا) جبکہ پاکستان میں جیولن کے دوسرے بہترین ایتھلیٹ یاسر سلطان سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ ارشد کی تکنیک کے علاوہ وہ دیگر عوامل کیا ہیں جن کی بدولت ارشد اپنے کریئر میں تین بار 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر جیولن پھینکنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اولمپکس کے جیولن فائنل میں ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپیئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے 89.45 میٹر کی تھرو کروائی اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا جبکہ کانسی کے تمغے کے حقدار گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز قرار پائےایک اچھی تھرو کیا ہوتی ہے؟

پاکستان میں جیولن کے دوسرے بہترین ایتھلیٹ یاسر سلطان بتاتے ہیں کہ جیولن تھرو میں موسم کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ’اگر ہوا آپ کے حق میں نہیں تو آپ جتنا مرضی زور لگا لیں جیولن نہیں جائے گا اور اگر ہوا ساتھ دے تو شاید آپ کا جیولن 10 میٹر اور آگے جا کر گرے گا۔‘جیولن پھینکتے وقت، ایک کھلاڑی کا مقصد نیزے کو زیادہ سے زیادہ فاصلے تک پھینکنا ہوتا ہے۔ اپنی باری کا اعلان ہونے کے بعد، کھلاڑیوں کو ایک منٹ کے اندر اپنی تھرو مکمل کرنی ہوتی ہے۔اس تھرو کو درست سمجھا جاتا ہے جو لینڈنگ سیکٹر کی حدود کے اندر رہتی ہے۔جیولن کو زمین میں گڑنا ضروری نہیں بلکہ اس کا زمین سے ٹکرا کر وہاں اپنا نشان چھوڑنا کافی سمجھا جاتا ہے۔جیولن پھینکنے اور اس کے زمین سے ٹکرانے تک ایتھلیٹس کے لیے لازم ہے کہ وہ تھروئنگ آرک یا فاؤل لائن کے عقب میں رہیں۔یہ بھی پڑھیےارشد ندیم کے جیولن پھینکنے کے انداز پر بی بی سی کی خصوصی رپورٹ کے مطابق بہت سے ٹریک اور فیلڈ ایونٹس کی طرح، جیولن تھرو بنیادی طبیعیات اور انسانی مہارت کا امتزاج ہے۔کئی عوامل جیولن کی پرواز کے فاصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں، جن میں ریلیز کی اونچائی، جیولن کی رفتار، ریلیز اینگل، اٹیکنک اینگل اور جیولن پر اثر کرنے والی قوتیں شامل ہیں۔

جیسے ہی کھلاڑی جیولن پھینکتا ہے، وہ زاویے کی رفتار کا استعمال کرتا ہے جسے پچنگ مومنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اچھی تھرو کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہوا کس طرح جیولن کے گرد اس کی رفتار اور شکل سے متاثر ہو کر بہتی ہے۔ جیسے ہی جیولن پرواز کرتا ہے، لفٹ یا ڈریگ جیسی ایروڈائنامک قوتیں اپنی پوزیشن تبدیل کرتی ہیں جس سے ہوا میں اس کا زاویہ اور استحکام متاثر ہوتا ہے۔،تصویر کا ذریعہ، کیپشنارشد کے سابق کوچ رشید احمد ساقی کو یقین ہے کہ ’اگر مقابلے کے دوران کوئی ارشد سے بہتر تھرو کروا دیتا تو اس نے 95 کی تھرو بھی کر جانی تھی‘’اگر کوئی ورلڈ ریکارڈ بنا سکتا ہے تو وہ ارشد ندیم ہیں‘فیاض حسین بخاری واپڈا میں ارشد ندیم کے کوچ رہ چکے ہیں۔

وہ خود بھی بین الاقوامی ایتھلیٹکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور انھوں نے آٹھ سال تک ارشد کی کوچنگ کی۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ارشد کی 86.59 میٹر کی کوالیفکشین تھرو دیکھ کر میں نے ارشد کو فون کیا اور کہا تھا کہ ’ارشد آپ میں ابھی 40 فیصد کی تھرو باقی ہے، آپ نے اسے کور کرنا ہے کیونکہ آپ باقی سب کھلاڑیوں سے اچھی تھرو کر سکتے ہیں۔‘فیاض حسین بخاری بتاتے ہیں کہ ’ارشد نے 92.97 میٹر کی حد تک تھرو کی مگر یہ 95 میٹر بھی کر سکتا تھا۔‘یاد رہے کہ اولمپکس میں جیولن پھینکنے کے فائنل مقابلے میں ارشد کی پہلی تھرو فاؤل قرار دی گئی تاہم ان کی دوسری تھرو نے 2008 میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔

یہ ارشد کے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ارشد کے سابق کوچ رشید احمد ساقی کو یقین ہے کہ ’اگر مقابلے کے دوران کوئی ارشد سے بہتر تھرو کروا دیتا تو اس نے 95 کی تھرو بھی کر جانی تھی۔‘ان کے مطابق ’ابھی بھی ارشد تھوڑا سا بائیں سائیڈ پر زیادہ گرے ہیں اور اگر آخری سٹیپ پر ان کا سامنے والا پاؤں جلدی لگ جاتا اور کمر تھوڑی اور زیادہ انوالو ہو جاتی تو ہو سکتا ہے یہ ورلڈ ریکارڈ بھی کر جاتا۔‘فیاض حسین بخاری کا ماننا ہے کہ اس وقت ’پوری دنیا میں اگر کوئی ورلڈ ریکارڈ بنا سکتا ہے تو وہ ارشد ندیم ہیں۔‘اب تک سب سے طویل جیولن تھرو کا ریکارڈ جمہوریہ چیک کے ایتھلیٹ جان زکیزنی کا ہے جنھوں نے 1996 میں 98.48 میٹر طویل تھرو کی تھی۔صرف ارشد ہی کیوں ورلڈ ریکاڈر بنا سکتے ہیں؟رشید احمد ساقی کے مطابق ارشد کا قد، لمبے بازو اور جسمانی ساخت ان کی وہ خصوصیات ہیں جو انھیں دوسرے جیولن تھروز سے منفرد بناتی ہیں۔رشید احمد ساقی، ارشد کے چھ فٹ تین انچ قد کے علاوہ ان کی ’دیسی کھانوں اور فٹنس‘ کو بھی ان کی کامیابی کی وجہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں ارشد ندیم کے بعد جیولن کے دوسرے بہترین ایتھلیٹ یاسر سلطان انھیں ’قدرتی ٹیلنٹ‘ مانتے ہیں جن کا لمبا قد، لمبے بازو اور بڑی جسامت انھیں جیولن دور تک پھینکنے میں مدد دیتی ہے۔یاسر کہتے ہیں کہ جیولن میں لمبا قد اور لمبے بازوں ایسے ہی ہے جیسے سونے پہ سہاگہ۔ وہ بتاتے ہیں کہ درمیانہ قد ہونے کے باعث ارشد کے مقابلے میں انھیں جیولن پھینکنے میں بہت زور لگانا پڑتا ہے۔یاسر کے مطابق یقیناً اہم چیز یہی ہے کہ آپ کتنی ٹریننگ کرتے ہیں اور کتنے فوکسڈ ہیں اور یہی چیزیں آپ کو پرفارم کرنے کے قابل بناتی ہیں۔یاسر جنوبی افریقہ کے ایک ٹور کا قصہ سناتے ہیں کہ جب وہ وہاں گئے تو کوچز ارشد کی جسامت دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے اتنے لمبے لمبے بازو اور ہاتھ ہیں۔ یاسر بتاتے ہیں کہ انھوں نے ارشد کے ہاتھ کھلوا کر ان کی پیمائش کی اور ان کوچز کے بقول دنیا میں جیولن کے کسی ایتھلیٹ کے اتنے لمبے ہاتھ نہیں، جتنے ارشد کے ہیں۔فیاض بخاری بتاتے ہیں کہ انھوں نے مقابلے سے قبل ارشد کو کہا تھا کہ آپ نے حریف ایتھلیٹس پر نہیں بلکہ اپنی تھرو پر فوکس کرنا ہے۔‘انھوں نے ارشد سے کہا تھا ’تمھارا مقابلہ اپنی تھرو سے ہے جسے تم نے بہتر بنانا ہے اور اگر دوسرے ایتھلیٹس کی طرف دیکھو گے تو پریشر میں آ جاؤ گے۔،تصویر کا ذریعہYasir Sultan،تصویر کا کیپشنپاکستان میں جیولن کے دوسرے بہترین ایتھلیٹ یاسر سلطان گذشتہ 7-8 سال سے جیولن تھرو کرتے آ رہے ہیں اور ان کی سب سے بڑی تھرو 80 میٹر ہےارشد کی تکنیک کیا ہے؟ارشد کی تکنیک کی وضاحت کرتے ہوئے فیاض حسین بخاری بتاتے ہیں کہ کرکٹ میں جب بیٹسمین کے شاٹ مارنے کے بعد فیلڈر بال پکڑتا ہے تو وہ دور سے وکٹ کی جانب جھٹکے سے بال پھینکتا (تھرو) ہے۔اسی طرح جیولن میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بازو میں جھٹکا لگانے کی کتنی صلاحیت ہے، کھلاڑیوں کو اس پر کام

کرواتے ہیں۔ارشد کے کوچ مزید بتاتے ہیں کہ ایتھلیٹ جو تھرو پھینک رہے ہوتے ہیں اس کا زاویہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ 28، 30 یا 31 میں سے کونسا زاویہ بہتر رہے گا، تھرو کہاں سے اور کتنی زور سے نکلنے گی تو بہتر ہدف تک پہنچ پائے گی۔اس کے علاوہ جیولن جتنی دیر ہوا میں رہتا ہے وہ اتنا فاصلہ طے کر رہا ہوتا ہے۔ اس جیولن کو پھینکنے کے لیے طاقت، رفتار اور تسلسل پر کام کیا جاتا ہے، جیولن پھینکنے کی تیکنیک اور ایتھلیٹس کی فٹنس وغیرہ۔۔۔ یہ سب ملا کر ہی ایتھلیٹ ایک بہتر ہدف تک جیولن پھینکنے کے قابل بنتے ہیں۔فیاض حسین کہتے ہیں کہ دورانِ ٹریننگ ایتھلیٹ کو اکثر اوقات ہفتے میں ہزار ہزار مرتبہ تھروز کروائی جاتی ہیں، گھنٹوں تک ویٹ ٹریننگ اور ایک ہفتے میں 30-35 کلومیٹر کی دوڑیں لگوائی جاتی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک تسبیح کو بنانے کے لیے دانے پر دانہ پرویا جاتا ہے اسی طرح ایک چیز کو بہتر بنانے کے لیے ٹریننگ پر ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔

ارشد کے کوچ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ارشد سے گالف بال سے ایک وقت میں 150 میٹر سے زیادہ کی تھرو کروائی ہوئی ہے جس میں 145-150 میٹر تھرو پر بازو نکل جاتا ہے، مقابلے والے دن یہی ٹریننگ اور کارکردگی سامنے آتی ہے، ’مسلسل پریکٹس کرکے ایتھلیٹ کو فیلنگ بن جاتی ہے کہ میں اتنے میٹر تھرو کر سکتا ہوں ہاں البتہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایتھلیٹ کو جمعے والے دن فیلنگ آتی ہے کہ آج میرا دن ہے تو مقابلہ اسی روز رکھیں گے۔‘مقابلے کے بعد دیے ایک انٹرویو میں ارشد ندیم نے بتایا تھا کہ ان میں یہ پراعتمادی اور فیل تھی کہ وہ 90 سے اوپر جا سکتے ہیں۔یاسر سطان کہتے ہیں کہ ’فیل‘ کا مطلب ہے ’باڈی رسپانس‘ وہ بتاتے ہیں کہ ارشد ندیم نے بالکل 100 فیصد درست بات کی ہے کیونکہ جیسے ہی ہم جیولن پکڑ کر پہلی وارم اپ تھرو کرتے ہیں اسی وقت پتا چل جاتا ہے کہ آج باڈی ٹھیک ہے اور میں اچھی تھرو کر سکتا ہوں۔، ذریعہ،تصویر کا کیپشننیرج چوپڑا کئی سالوں سے مسلسل ارشد سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں لیکن آج تک وہ ایک مرتبہ بھی 90 میٹر تک تھرو نہیں کر پائے’چوپڑا نے بہت کوشش کی مگر جب وہ زور لگاتے تو لائن کراس ہو جاتی‘جیسا کہ ہم نے اوپر آپ کو بتایا کہ دنیا میں ارشد ندیم سمیت آج تک صرف 24 ایتھلیٹس ہی ایسے ہیں جو 90 میٹر کے ایلیٹ کلب میں شامل ہیں، باقی ایتھلیٹ اس ہدف تک کیوں نہیں پہنچ پاتے؟ خاص کر نیرج چوپڑا جو ارشد سے کہیں بہتر تھرو کرتے آ رہے ہیں وہ آج تک 90 تک پہنچ بھی نہیں کر پائے؟اس بارے میں فیاض بخاری کہتے ہیں کہ اس کا سراسر انحصار آپ کی ٹریننگ، سپیڈ لیول، محنت اور جسمانی ساخت پر ہے۔

’دنیا تیاگ کرنی پڑتی ہے تب جا کر ایسے ریکارڈ بنتے ہیں۔‘ نیرج کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ارشد کو فوکس کر لیا تھا، اپنی تھرو کو فوکس نہیں کر رہے تھے اسی لیے انڈر پریشر آ گئے۔‘رشید احمد ساقی کا ماننا ہے کہ ’یہ سب مائنڈ گیم‘ ہوتی ہے اور ارشد کی 92.97 میٹر تھرو کے بعد باقی ایتھلیٹس کنفیوز ہو کر پریشر میں آ گئے تھے اسی لیے کوئی بھی 90 میٹر کا فاصلہ عبور نہیں کر پایا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے کہ کرکٹ میں جب بولر زیادہ زور لگانے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے لائن کراس ہو جاتی ہے او وہ بال نو بال قرار دی جاتی ہے۔بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔

رشید ساقی کہتے ہیں کہ ’چوپڑا نے کوشش تو بہت کی مگر جب جب وہ زور لگاتے تھے تو لائن کراس ہو جاتی تھی۔‘تاہم یاسر سلطان کہتے ہیں کہ ’نیرج چوپڑا چھوٹا کھلاڑی نہیں‘ کل کی 89.45 میٹر کی تھرو ان کی سیکنڈ بیسٹ ہے جو سیزن بیسٹ کے علاوہ ان کے پرسنل بیسٹ کے قریب بھی ہے ’نیرج نے بری تھرو نہیں کی، ہمارا بندہ زیادہ اچھی تھرو کر گیا۔‘

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں