برطانیہ کی خطرناک ترین جیل جہاں بند دروازے کے پیچھے ’خون، تشدد اور موت تک عملے کا انتظار کرتی ہے

0
21
برطانیہ کی خطرناک ترین جیل جہاں بند دروازے کے پیچھے ’خون، تشدد اور موت تک عملے کا انتظار کرتی ہے‘ - BBC News اردو

جیل میں افراتفری کا ماحول تھا۔ کان چیر دینے والے الارم نے ہمیں جیل میں پیش آنے والے ایک واقعے کی اطلاع دی جہاں لوہے کے دروازے بجنے کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں اور عملہ یہ دیکھنے کے لیے دوڑا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ ہم ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے۔اس بے ہنگم اور اعصاب شکن ماحول میں جیل کے کمروں کے دروازے اور سلاخوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

والکی ٹالکی پر خبر آئی کہ کسی قیدی نے خود کو تیز دار آلے سے نقصان پہنچایا ہے۔اس جیل کے کمرے میں جھانکا تو خون نظر آیا۔ ایک جیل کا افسر نیچے جھکا ہوا تھا اور خون کا بہاؤ روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ قیدی نے اپنے بازو پر ماں اور باپ کے الفاظ تیز دھار آلے سے لکھنے کی کوشش کی تھی۔بی بی سی کو لندن کے شمال میں واقع برطانیہ کی خطرناک ترین جیلوں میں شامل ہونے والی ایچ ایم پی پینٹوویل جیل تک رسائی دی گئی۔

ملک میں اس وقت ایک بحران ہے اور قیدیوں کے لیے کم ہوتی جگہ کے مسئلے سے دوچار حکومت آئندہ ہفتے ایک متنازع سکیم کی مدد سے چند قیدیوں کو قبل از وقت رہا کرنے جا رہی ہے تاکہ اس دباؤ کو کم کیا جا سکے۔اس جیل میں دو دن کے عرصے میں ہمیں اس بحران کی شدت اور سنگینی کا سامنا ہوا جہاں پر عملہ خود بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ جیل کے عملے کو علم نہیں ہوتا کہ الارم بجنے پر وہ جس بند دروازے کو کھولنے والے ہیں اس کے پیچھے کیا چیز ان کا انتظار کر رہی ہے۔ خون، تشدد حتی کہ موت تک ممکن ہے۔،

تصویر کا کیپشنشائے ڈھری پانچ سال سے اس جیل میں کام کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ان کی دونوں کلائیاں اس وقت ٹوٹ گئی تھیں جب انھوں نے دو گینگ اراکین کی لڑائی ختم کروانے کی کوشش کیشائے ڈھری پانچ سال سے یہاں کام کر رہی ہیں لیکن ان کے مطابق حالات اتنے زیادہ برے نہیں تھے۔ حال ہی میں ان کی دونوں کلائیاں اس وقت ٹوٹ گئی تھیں جب انھوں نے دو گینگ اراکین کی لڑائی ختم کروانے کی کوشش کی۔

ان کا ماننا ہے کہ گینگ سے منسلک جرائم جیلوں میں زیادہ قیدیوں کی ایک بڑی وجہ ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ جب دو لوگوں کی لڑائی شروع ہوتی ہے تو سب اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور اس کو ختم کرنے کی کوشش بہت پریشان کن ہوتی ہے۔یہ بھی پڑھیے 1842 میں بننے والی یہ جیل گذشتہ 180 سال کے دوران زیادہ نہیں بدلی، جہاں آغاز میں 520 قیدیوں کی کوٹھڑیاں تھیں تاہم اب یہاں 1205 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے لیکن ایک کوٹھڑی میں دو دو قیدی رکھے جاتے ہیں اور اس وقت یہ گنجائش سے زیادہ بھر چکی ہے۔یہاں صرف انسان نہیں بلکہ چوہے اور کاکروچ بھی کثرت میں پائے جاتے ہیں۔

یہاں قید زیادہ تر لوگ ریمانڈ پر ہیں یعنی مقدمے کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ باقی بیس فیصد قتل، ریپ اور منشیات جیسے سنجیدہ جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔،تصویر کا کیپشنایک قیدی کی چھ فٹ چوڑی کوٹھڑی میں پیشاب اور خراب کھانے کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ کونے میں ٹائلٹ لیک کر رہا تھا۔ٹام (فرضی نام) بھی ریمانڈ پر ہیں۔ ان کی چھ فٹ چوڑی کوٹھڑی میں پیشاب اور خراب کھانے کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ کونے میں ٹائلٹ لیک کر رہا تھا۔

ٹام کہتے ہیں کہ میں تین ہفتے سے ان کو بتا رہا ہوں کہ میں اسے ٹھیک کر سکتا ہوں، میں پلمبر ہوں لیکن سامان نہیں۔جیل میں زیادہ قیدیوں کا مطلب ہے کہ عملے کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے اور ہر قیدی کی ضروریات کو پورا کرنا وقت طلب کام ہے۔،تصویر کا کیپشنایک رات مائیکل لیوس کی آنکھ کھلی تو ان کے ساتھ قید شخص خودکشی کرنے کی کوشش کر رہا تھااڑتیس سالہ مائیکل لیوس منشیات کے جرم میں قید ہیں تاہم وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسی جگہ جہاں گینگ وار، منشیات اور پیسوں کی وجہ سے تشدد کا ماحول ہو، آپ خود کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک رات ان کی آنکھ کھلی تو ان کے ساتھ قید شخص خودکشی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ اس دورانیے کے بارے میں بتاتے ہیں جب وہ مدد کے لیے جیل افسر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ’میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ ابھی مرا نہیں کیونکہ وہ سانس لے رہا تھا۔ اس کا جسم بھی گرم تھا۔‘مائیکل بتاتے ہیں کہ ’رات کے وقت وہ خود سے دروازہ نہیں کھول سکتے تھے کیونکہ ایک تو ان کے پاس چابیاں نہیں تھیں دوسرا یہ ایک سکیورٹی رسک ہے۔‘انھوں نے عملے کے رکن کا انتظار کیا اور جیسے ہی وہ اندر آیا اس نے ان کا معائنہ کیا۔’وہ ابھی زندہ تھا۔‘’میں یہاں رہنے کی بجائے مرنا پسند کروں گا‘میں نے کئی جیلوں کا دورہ کیا اور پینٹوویل کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے۔

مشکل حالات میں عملہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔ وہ تشدد پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ آسان نہیں۔اگلے ہفتے حکومت کچھ مجرموں کو رہا کرنے والی ہے۔جیل کے گورنر سائمن ڈریسڈیل کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ دباؤ کم ہو گا مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ باقی جیلوں میں بھی سیل خالی ہوں گے اور پینٹوویل سے کچھ قیدیوں کو دوسری جیلوں میں بھیجا جا سکے گا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ پینٹوویل ایک ایسی جیل ہے جو لندن کی تمام عدالتوں کے لیے ایک استقبالیہ جیل کا کام کرتی ہے یعنی ہر قیدی کو پہلے یہاں بھیجا جاتا ہے۔

ڈریسڈیل کہتے ہیں کہ ہماری پوری توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر صرف ہو جاتی ہے کہ ہمارے پاس خالی سیل اور قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش موجود رہے اور اسی باعث ہمیں قیدیوں کے لیے کچھ بامعنی کاموں کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ لیکن پینٹوویل کے کچھ قیدیوں کا ماننا ہے کہ یہاں سے چند افراد کے رہا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک قیدی نے روتے ہوئے کہا ’کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ انھیں ہماری کوئی پرواہ نہیں۔ میں یہاں رہنے کی بجائے مرنا پسند کروں گا۔‘

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں