چیخ انتہائی دردناک تھی۔۔۔
مجھ جیسے کمزور دل انسان سے رہا نہیں گیا۔
دل کڑا کر کے میں نے پوچھ ہی لیا۔ ’کون چیخ رہا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟‘
’کچھ نہیں، سرکاری کام ہو رہا ہے،‘ چوہدری اسلم نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
یہ غالباً سنہ 1999 کی ایک سرد صبح تھی اور لگ بھگ صبح دس بجے کا وقت تھا۔
کراچی کے ناظم آباد تھانے کی عمارت کے عقب میں آرام کے لیے مخصوص اپنے ’بیڈروم‘ میں بستر پر نیم دراز (اُس وقت کے) ڈی ایس پی ناظم آباد چوہدری اسلم ابھی میرے آنے پر ہی نیند سے بیدار ہوئے تھے۔
اور میں اُسی ’بیڈ روم‘ کی دیوار کی دوسری جانب کسی کے مسلسل چیخنے سے انتہائی بے چین تھا۔
’تم آئے کیوں ہو؟‘ اب چوہدری اسلم نے مجھ سے سوال کیا۔
’نا تو یہ میرے جاگنے کا وقت ہے نہ تیرے۔۔۔ کیوں آیا ہے تو؟‘ چوہدری اسلم نے پھر پوچھا۔
میں نے چوہدری اسلم کو جواب دینے کی بجائے اپنے ’استاد‘ اور (اُس وقت اُردو کے اخبار) ’جسارت’ کے کرائم رپورٹر اے ایچ خانزادہ کی جانب مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ خانزادہ کو ساتھ لے کر ہی میں چوہدری اسلم سے ملنے آیا تھا۔
’یار اسلم، تم کسی پلمبر کو (گرفتار کر کے) لائے ہو کیا؟‘ مجھ سے کیے گئے سوال کے جواب میں اے ایچ خانزادہ نے چوہدری اسلم سے سوال کیا۔
’ہاں، لائے ہیں۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘ اسلم خان نے سوال کیا۔
’بھئی اب یہ تم ہی بتاؤ۔‘ اے ایچ خانزادہ نے گردن میری جانب گھمائی۔
میں اُس وقت کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا۔
چوہدری اسلم کی بات بالکل درست تھی۔ یہ وقت نہ میرے جاگنے کا تھا نہ اے ایچ خانزادہ کا اور نہ ہی چوہدری اسلم کا۔
شدید ترین تشدد کا شکار اُس زمانے کے کراچی میں کام کرنے والے ہم تمام کرائم رپورٹرز اور پولیس افسران عموماً رات بھر کام کیا کرتے تھے اور دن چڑھے تک سویا کرتے تھے۔
اُس صبح میں بھی عمران اسلم کی ایک بے وقت فون کال سے بیدار ہوا تھا۔
عمران اسلم اُس وقت دی نیوز کے ایڈیٹر اور میرے ’باس‘ تھے۔
عمران اسلم نے مجھے بتایا کہ پولیس ان کے گھر میں کام کرنے والے پلمبر کو گرفتار کر کے لے گئی ہے۔
’کیا تم جا کر میرا پلمبر واپس لاسکتے ہو؟‘ عمران اسلم نے مجھ سے پوچھا۔
فون بند ہوا تو میں نے ایچ اے خانزادہ کو فون کیا اور ذرا ہی دیر میں ہم یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ پلمبر کو چوہدری اسلم لے گئے ہیں۔
اور اب میں نے اور ایچ اے خانزادہ نے ناظم آباد تھانے پہنچ کر بے وقت چوہدری اسلم کو بھی نیند سے اٹھا دیا تھا۔
میں، خانزادہ صاحب اور چوہدری اسلم تینوں اُس بیڈروم میں تھے جس کی دیوار کی دوسری جانب سے آنے والی چیخیں سُن سُن کر میرا دل دہلا جا رہا تھا۔
اور چوہدری اسلم ان چیخوں کی وجہ ’سرکاری کام‘ قرار دے رہے تھے۔
بالآخر چائے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں پر مشتمل چوہدری اسلم کے عملے کے کچھ ارکان ایک پریشان حال شخص کو لے کر کمرے میں داخل ہوئے۔
’کیا بتایا اِس نے؟‘ چوہدری اسلم نے پولیس اہلکاروں سے پوچھا۔
’بول ہی نہیں رہا صاحب۔۔۔‘ ایک اہلکار نے جواب دیا۔
چوہدری اسلم میری طرف مڑے اور کہا ’سرکاری کارروائی پر بھی نہیں بول رہا تیرا یہ۔۔۔پلمبر۔‘ چوہدری اسلم کے لہجے میں اب تک نیند سے جلد بیدار ہو جانے والی بیزاری تھی۔
تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہی وہ پلمبر ہیں جنھیں میں ’چھڑوانے‘ کے لیے آیا ہوں اور چیخیں بھی ان ہی کی تھیں جنھیں سُن سُن کر میرا دل ڈوبا جا رہا تھا۔
’کیوں ہو رہا ہے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ؟‘ میں نے پلمبر سے پوچھنا چاہا۔
’میں بتاتا ہوں۔‘ چوہدری اسلم نے مداخلت کی۔ ’اس کا بھائی دہشت گرد ہے۔ ہم اُسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کو پتا ہے کہ بھائی کہاں چھپا ہوا ہے۔ اِس کو کہہ دے اُس بھائی کا پتا ہم کو بتا دے ہم اسے سرکاری کارروائی کے بغیر تیرے حوالے کر دیں گے۔‘
چوہدری اسلم نے اپنے طور پر مجھے ’سودے بازی‘ کی پیشکش کی۔
میں نے پلمبر سے پوچھا ’آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے وہ بھائی کہاں ہیں، جن کا پتا پولیس جاننا چاہتی ہے؟’
میرا سوال سُن کر پریشان حال پلمبر کے آنسو بہنے لگے۔
تھوڑی دیر ہونے والی گفتگو کے بعد حیرت انگیز طور پر (یا شاید خانزادہ سے دیرینہ دوستی کو مد نظر رکھتے ہوئے) چوہدری اسلم نے پلمبر کو ’رہا‘ کرنے اور ہمارے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ’لے جا، لے جا، مگر چائے تو پوری پی لے۔‘
اب اس معاملے میں پولیس افسر چوہدری اسلم میرے لیے ’ہیرو‘ تھے یا ’ولن‘ ۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔ تاہم ایک بات جو مجھے ضرور پتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ’چوہدری‘ ہرگز نہیں تھے۔
کراچی پولیس کے (شاید) سب سے معروف افسر بننے والے محمد اسلم خان کو آپ سب ’چوہدری‘ اسلم کے نام سے جانتے ہیں۔
آج سے لگ بھگ سات برس قبل، یعنی نو جنوری 2014 کو ایک مبینہ خودکُش حملے میں ڈرائیور اور محافظ کے ساتھ ہلاک ہو جانے والے چوہدری اسلم نہ تو خاندان یا ذات کے لحاظ سے چوہدری تھے، نہ چوہدری کا خطاب اُن کے نام کا حصّہ تھا۔
پھر نہ معلوم کیوں ،کب ،کس نے اور کیسے اُن کے نام کے ساتھ چوہدری کا سابقہ لگایا جو بالآخر اُن کے نام کا ایسا حصّہ بنا کہ اب تو شاید کم ہی لوگ اُن کے اصل نام سے واقف ہوں۔
سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابق ڈی ایس پی ناظم آباد عارف جاہ صدیقی چوہدری اسلم کے استاد تھے۔
عارف جاہ صدیقی کے صاحبزادے آفتاب جاہ صدیقی اب لندن میاں مقیم ہیں اور نہ صرف تجزیہ نگار ہیں بلکہ کراچی اور کراچی پولیس کے اُمور پر بہت گہری نگار رکھتے ہیں۔
محکمہ پولیس میں شمولیت
آفتاب صدیقی کی تحقیق کے مطابق چوہدری اسلم سنہ 1964 میں ضلع مانسہرہ کی تحصیل ’ڈُھڈیال‘ میں پیدا ہوئے اور 31 اکتوبر 1984 کو پولیس میں شمولیت اختیار کی۔
قریباً تمام ہی عرصہ ملازمت کے دوران تنازعات اور تضادات سے گھرے چوہدری اسلم کو قریب اور دور سے جاننے والوں کی رائے ہمیشہ حیرت انگیز طور پر تقسیم رہی ہے۔
جن لوگوں نے انھیں ٹی وی چینلز پر دنیا کے سب سے خطرناک سمجھے جانے والے دہشت گردوں کو دبنگ الفاظ میں للکارتے اور ’چھوڑوں گا نہیں‘ کہتے دیکھا اور سُنا ہے اُن کے لیے اس دعوے پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ ابتدا میں یہی چوہدری اسلم ’کافی کم گو اور شرمیلے تھے۔‘
چوہدری اسلم کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہونے والے کراچی پولیس کے سابق ایس پی لیاری فیاض خان نے کرائم انویسٹگیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) سمیت کراچی پولیس کے کئی شعبہ جات میں چوہدری اسلم کے ساتھ برسوں کام کیا اور ’اچھے بُرے‘ وقتوں میں چوہدری اسلم کے ساتھ رہے۔
فیاض خان کے مطابق چوہدری اسلم کی شمولیت تو ’سندھ ریزرو پولیس‘ کی مشہور زمانہ ’ایگل سکواڈ‘ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ہوئی مگر وہ جلد ہی کراچی کی ریگولر (باقاعدہ) پولیس فورس کا حصّہ بن گئے۔
آفتاب صدیقی کے مطابق چوہدری اسلم ترقّی کرتے کرتے پہلے انسپکڑ بنے اور تھانہ گلبہار کے ایس ایچ او مقرر کیے گئے اور 25 فروری 1999 کو ڈی ایس پی ناظم آباد مقرر ہوئے۔
پھر 2000 کی دہائی میں وہ مختلف اوقات میں سپیشل برانچ لاڑکانہ، ایس آر پی سکھر، اینٹی کار لفٹنگ سیل کراچی میں تعینات رہے۔
سنہ 2010 کے دہائی سے اپنی آخری دن تک چوہدری اسلم نے بطور ایس پی، سی آئی ڈی اور انچارج اینٹی ایکسٹریم ازم کرائم خدمات انجام دیں۔
پولیس کی قریباً تیس برس پر مشتمل ملازمت کے دوران وہ ہمیشہ تنازعات اور زبردست اُتار اور چڑھاؤ کا شکار بھی رہے۔
شہرت کا آغاز
چوہدری اسلم کو شہرت یا توجہ تب ملنا تب شروع ہوئی جب وہ سنہ 1992 میں بدترین تشدد کا شکار کراچی میں تھانہ گلبہار تھانے کے ایس ایچ او مقرر کیے گئے۔
یہ وہ دور تھا جب شہر میں خوف و دہشت کا راج قائم تھا۔
نیم فوجی ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق یہ وہ دور ہے جب کراچی میں عجیب ماحول تھا۔
’تب کراچی کے کئی علاقوں میں عقوبت خانے (ٹارچر سیل) قائم ہو چکے تھے، مخالفین کا کھلے بندوں اغوا اور قتل ہوتا تھا، ان کی لاشوں کو باقی تمام مخالفین کے لیے عبرت بنا کر بوری میں بند کر کے پھینک دیا جاتا تھا، زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے تھے، کھمبوں سے لٹکا کر ان کو زندہ اور مردہ ٹکڑے کر دیا جاتا تھا، آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دینا، گلے کاٹ دینا، زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جانا سب کچھ روز ہوتا تھا۔‘
وہ افسر مزید بتاتے ہیں کہ ’یہی وہ وقت تھا جب شہر میں اسلحے کی بھر مار اور مسلح گروہوں کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔ کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت نے صرف بندوق کے لہجے میں بات کرنی شروع کر دی تھی اور اپنے اپنے مسلح جتھّے قائم کر لیے تھے۔‘
حال یہ تھا کہ خود پولیس کے سربراہ اور 25 ہزار کی فورس کے کمانڈر ڈی آئی جی شعیب سڈل کی حفاظت کے لیے پولیس کی بجائے نیم فوجی ادارے فرنٹئیر کور (ایف سی) کی نفری بھیجی گئی تھی۔
ہر تنظیم کے کارکن اور ہر سیاسی جماعت و گروہ کے ارکان موت کے اس بھیانک کھیل کا شکار ہوئے۔ شہر بھر میں موت کا رقص جاری تھا۔
بالآخر وزیر اعظم بے نظیر بھٹّو کے دوسرے دور حکومت میں ریاست نے کراچی کی بگڑتی ہوئی اس صورتحال پر قابو پانے کا فیصلہ کیا اور جون 1992 میں سندھ میں پہلے ہی سے جاری آپریشن کلین آپ کا دوسرا مرحلہ ’کراچی آپریشن‘ کے عنوان سے شروع کیا۔
اس آپریشن میں اگرچہ پولیس افسران نے آپریشن کے اہداف حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی مگر خوف اور طاقت کا جواب خوف اور طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے سے پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی۔
اس دوران انتہائی مشکوک اور متنازعہ ’پولیس مقابلے‘ شروع ہوئے اور ان مقابلوں میں شریک پولیس افسران و اہلکاروں کی لگاتار ہلاکتوں کے ایسے سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس نے کراچی کو دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔
حکام نے آپریشن کے دوران کراچی کے ضلع وسطی کو شہر کا سب سے زیادہ حساس علاقہ قرار دیا اور اسی ضلع میں چند سب سے اہم تھانوں میں سے ایک تھانہ گلبہار سمجھا جاتا تھا۔
اور اسی گلبہار تھانے میں چوہدری اسلم کی بطور ایس ایچ او تعیناتی نے اُن کی زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔
آفتاب صدیقی بتاتے ہیں کہ ’تقریباً چار برس جاری رہنے والے کراچی آپریشن کے دوران سینکڑوں پولیس مقابلوں میں سو سے زائد مطلوب ملزمان کو ہلاک یا گرفتار کر کے جیل یا قبرستان تک پہنچانے والے ایس ایچ او تھانہ گلبہار چوہدری اسلم جلد ہی ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ سمجھے جانے لگے تھے۔‘
اور پھر جلد ہی انھیں ذرائع ابلاغ میں ان کارروائیوں سے متعلق خبروں کی بنا پر زبردست شہرت ملنا شروع ہوئی اور کراچی شہر کے چند نامور پولیس افسران میں اُن کا شمار بھی ہونے لگا۔
چوہدری اسلم کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق ‘پھر اسلم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آئے دن کسی ’پولیس مقابلے‘ یا متنازع اور ’ماورائے عدالت ہلاکت‘ سے اُن کا نام جڑنے لگا اور وہ پولیس کے ایسے افسر بن کر ابھرے جن کا نام ہی ’دہشت‘ کی علامت بن گیا۔‘
اُن کی قیادت میں ہونے والے آپریشن کلین اپ کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے سینکڑوں کارکنوں (یا مقدمات میں مطلوب ملزمان) کی ایسی ہلاکتیں ہوئیں جنھیں حکام ‘پولیس مقابلہ’ قرار دیتے رہے اور سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ’ماورائے عدالت ہلاکتیں‘ کہتی رہیں۔
یہی وہ دور تھا جب چوہدری اسلم یا اُن جیسے پولیس افسران کے بارے میں یہ ’منقسم رائے‘ اور سوال سامنے آئے کہ ’چوہدری اسلم ہیرو ہیں یا ولن؟‘
بظاہر ریاستی اداروں اور سرکاری حکام کے نزدیک وہ ’ہیرو‘ تھے مگر متنازع ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرین اور لواحقین کی رائے میں وہ واضح طور پر ’ولن‘ قرار پائے۔
یہاں تک کہ خود کراچی پولیس میں بھی ایسے افسران تھے جو آج بھی چوہدری اسلم کو ہیرو ماننے پر تیار نہیں ہیں۔
ایسے ہی ایک اعلیٰ ترین افسر جو پاکستان کی پولیس میں مختلف تعیناتیوں کے دوران آئی جی اور دیگر حساس محکموں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے وہ آج بھی چوہدری اسلم کو ’کرائے کا قاتل‘ اور اسی نوعیت کے دیگر القابات سے نوازتے ہیں۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انھوں نے مجھ سے گفتگو میں کہا ’میں نے چوہدری اسلم کو بطور ایس ایچ او دیکھا اور ڈی ایس پی دیکھا۔ مگر مجھے نہ تو وہ کبھی بہت ہی شاطر و شاندار، عقلمند و دانشور پولیس افسر لگے اور نا ہی کبھی ماہر و مشّاق تفتیش کار یا انتظامی اُمور پر گرفت رکھنے والے قابل افسر۔‘
’وہ تو ہمیشہ ریاستی اداروں کے ایما پر کام کرتے رہے۔۔۔اسلم یا راؤ انوار جیسے لوگ تو وہ ہیں کہ ’کسی ادارے‘ نے پکڑ کر دے دیا اور آپ نے مار دیا۔۔۔‘
مگر کراچی پولیس کی موجودہ قیادت میں ایسے افسر بھی ہیں جو چوہدری اسلم سے زیادہ ’بہادر، نڈر، مخلص اور اپنے کام سے لگن رکھنے والا افسر‘ کسی کو مانتے ہی نہیں۔
عمر شاہد اب کراچی میں ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ہیں۔
چوہدری اسلم کے ’ہیرو‘ یا ’ولن‘ ہونے کے سوال پر ڈی آئی جی عمر شاہد نے مجھ سے ہی سوال کیا کہ ’آپ کس زاویے سے پوچھ رہے ہیں؟‘
’اگر صولت مرزا یا آرمی پبلک اسکول پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کے ترجمان احسان اللّہ احسان چوہدری اسلم کو ’قاتل‘ کہتے ہیں تو یہ لوگ تو قاتل خود ہیں۔ جن کے خلاف چوہدری اسلم نے کارروائی کی اُن میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا۔‘
ڈی آئی جی عمر شاہد کے مطابق ’صولت مرزا اور احسان اللہ احسان سب مجرم ہیں۔ اور ایسا نہیں تھا کہ ان میں کوئی ملزم یا مشکوک ہو سب کے سب عدالتوں سے سزا یافتہ تھے۔ اور اگر اسلم نے ان کے خلاف کارروائی کی تو کیا غلط کیا؟‘
انھوں نے کہا کہ پھر وہ ماحول دیکھیے جب یہ سب کچھ ہوا، جب تھانوں کے باہر روز بوری بند لاشیں ملیں، آئی جی وائرلیس پر پیغام دیتے کہ وردی نہ پہنیں ورنہ مارے جا سکتے ہیں تو پولیس کی ایک نفسیات بھی تو بن جاتی ہے۔
’سنہ 2011 میں چوہدری اسلم کے گھر پر بم سے حملہ ہوا۔ آٹھ لوگ مارے گئے، پورا گھر تباہ ہو گیا۔ اپنی آرام دہ کرسی میں بیٹھ کر میں یا آپ صحیح یا غلط کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ کیا ہوا یا کیا ہونا چاہیے تھا؟‘
اس دلیل کے جواب میں چوہدری اسلم پر تنقید کرنے والے سابق اعلیٰ پولیس افسر نے بھی تسلیم کیا کہ پاکستان ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جہاں ‘طویل عرصے سے کرمنل جسٹس سسٹم (انصاف کی فراہمی کا نظام یا جرم و سزا کا نظام) بظاہر ناکام ہو چکا ہے۔ عدالتیں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے، خفیہ ادارے، سیاسی نظام، مقننّہ، انتظامیہ، عدلیہ کوئی بھی ادارہ اپنا کام صحیح نہیں کر رہا۔’
انھوں نے کہا کہ ’جب جج کا قلم فیصلہ نہ کر رہا ہو تو پھر چوہدری اسلم جیسے پولیس افسروں کا ہتھیار فیصلہ کن قوّت حاصل کر لیتا ہے۔‘
یاد رہے کہ پولیس افسر عمر شاہد کے والد کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر صولت مرزا کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی اور صولت مرزا کو چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا۔
چوہدری اسلم پر تنقید کرنے والے سابق پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’چوہدری اسلم نے پہلے جس ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف آپریشن کیا پھر اسی ایم کیو ایم کے گورنر عشرت العباد سے اپنے سینے پر تمغے لگوائے اور اسی ایم کیو ایم کے وزیر داخلہ رؤف صدیقی کی گاڑی سے اترتے تو میں نے بھی دیکھا اور تم نے بھی دیکھا۔‘
ڈی آئی جی عمر شاہد کہتے ہیں کہ ’الزامات چوہدری اسلم کے بارے میں بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ درست بھی ہوں مگر کام کرتے ہوئے ایسے خطرات کسی نے مول نہیں لیے جیسے اسلم نے لیے۔‘
سابق ایس پی لیاری فیاض خان بھی عمر شاہد کی تائید کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’کام کا تو وہ بہت جنونی تھا۔‘
’ہر وقت کام یا پھر کام سے متعلق بات چیت۔ ایک اور چیز تھی وہ یہ کہ پولیس کے خلاف حملہ کرنے والے اور پولیس اہلکاروں یا افسروں کا قاتلوں کے لیے چاہے وہ کوئی بھی ہوں اسلم کے پاس رحم کا کوئی گوشہ نہیں تھا۔‘
صحافی اے ایچ خانزادہ بھی کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ کام بڑی محنت اور جانفشانی سے کیا اسلم نے۔ پولیس میں ہزاروں اے ایس آئی بھرتی ہوتے ہیں، کوئی چیز تو تھی جس نے اُس کو ایس پی بلکہ طاقتور ترین پولیس افسر بنا دیا، اور میرے خیال میں وہ اس کا کام تھا۔‘
چوہدری اسلم کی کہانی کراچی پولیس کے موجودہ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر جیسے افسروں کے رائے کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی۔
عرفان بہادر کے والد کراچی آپریشن کے سب سے نامور مانے جانے والے پولیس افسر سابق ایس ایچ او نیو کراچی انسپکٹر بہادر علی کو بھی 28 جون 1994 کو گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
چوہدری اسلم ہیرو ہیں یا ولن کے سوال پر عرفان بہادر کے جذبات اُن کے لہجے سے جھلک رہے تھے۔
’چوہدری اسلم کے ہاتھوں ہمیشہ مارے جانے والوں کا ذکر کیوں ہوتا ہے، آپ لوگ کبھی اُن کی بات کیوں نہیں کرتے جو لوگ چوہدری اسلم نے گرفتار کیے؟‘
’میں ہوں یا چوہدری اسلم، ہم تو پیشہ وارانہ طور پر ریاست کے ملازم ہیں۔ اگر آج ریاست کو عسکریت پسندوں سے خطرہ ہے تو ہمارا کام عسکریت پسندوں سے ریاست کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر شدت پسندی سے خطرہ ہے تو ہمارا کام شدت پسندی کے خلاف کارروائی ہے۔ اور یہ فیصلہ ہم نہیں کرتے کہ کون مجرم ہے اور کون ریاست کا دشمن۔ ہم تو ریاست کو بچانے اور قانون کو نافذ کرنے کے لیے دیے جانے والے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں۔‘ عرفان بہادر نے چوہدری اسلم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وضاحت کی۔
اس سوال پر کہ جب کوئی جماعت حکومت میں نہیں ہوتی تو چوہدری اسلم جیسے پولیس افسران کے نزدیک اُس کے ارکان مجرم بن جاتے ہیں اور جب وہی جماعت حکومت میں آجاتی ہے تو پھر چوہدری اسلم جیسے افسر اس کے ارکان کے خلاف کارروائی روک دیتے ہیں اور نئی حکمران جماعت کے مخالفین اُن کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔ تو چوہدری اسلم کی شبیہ تو ’کرائے کے قاتل‘ یا ولن جیسی ہی بن جاتی ہے، عرفان بہادر نے دلیل دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
’لیاری گینگ وار کا سرغنہ رحمٰن ڈکیت پیپلز پارٹی سے قربت رکھتا تھا اور چوہدری اسلم کے ہاتھوں پیپلز پارٹی ہی کے دور حکومت میں ہونے والے پولیس مقابلے میں مارا گیا۔‘
اس دور کے ایک تجربہ کار سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ ’1990 کی دہائی کے وسط میں ریاست کی کھلی حکمت عملی یہ تھی کہ دہشت گردی کے نام پر سیاسی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ جون 1992 میں آپریشن کا آغاز تو ایسے افسران کی ضرورت محسوس ہوئی جو بس حکم کے غلام ہوں اور ہر قیمت پر حکم بجا لائیں یہ نہ دیکھیں کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ ظلم ہے یا انصاف۔ بس پھر ایسے کئی نام اس زمانے میں ابھر کر آئے جنھوں نے فرضی یا جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے نام یا بدنامی کمائی اور چوہدری اسلم بھی ان میں سے ایک تھے۔‘
’وہ منھ بھر بھر کہ کہتے تھے کہ میں نے ایک سو بیس لڑکے مارے ہیں۔ پھر جب یہی ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ریاست کے ساتھ پارٹنر بن گئی تو یہی چوہدری اسلم اُسی ایم کیو ایم کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔‘
اس سوال پر کہ پولیس افسران کہتے ہیں کہ وہ تو شہریوں کو اُن لوگوں سے بچانے آئے تھے جو لوگوں کو مار رہے تھے سیاسی رہنما نے کہا کہ یہ کھوکھلا جواز بھی دلیل ہرگز نہیں بن سکتا کہ ریاست بے دریغ شہریوں کا قتل عام شروع کر دے اور غیر قانونی فعل کو قانونی ثابت کرنے لگے۔
’پھر جب پالیسی لشکر جھنگوی کے خلاف بنی تو بھی ان افسران نے وہی طریقہ اپنایا، یعنی طالبان ہو یا نہ ہو لشکر سے تعلق ہو یا نہ ہو سہراب گوٹھ سے کسی بھی پختون کو اٹھایا، بس بال لمبے ہوں، ڈاڑھی ہو پشتو بولتا ہو تو پہلے پکڑ کر بند کر دو پھر خبر بنانی ہو تو لاک اپ سے نکال کر مار دو۔ نقیب اللّہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔‘
دوسرا دور
جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے فوجی حکومت قائم کی تو آنے والے کئی برسوں میں کراچی آپریشن کے ان نمایاں کرداروں یعنی پولیس افسران کے پراسرار قتل کی کئی وارداتیں بھی یکے بعد دیگرے ہوتی رہیں اور بیشتر کو گھات لگا کر یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیے گئے منظم حملوں میں قتل کر دیا گیا۔
ریاستی پالیسی تبدیل ہوئی اور توجہ ایم کیو ایم سے ہٹ گئی۔
سابق پولیس افسر کے مطابق پھر چوہدری اسلم کی بندوق اور ہتھکڑی کا رُخ لیاری کے بدنام زمانہ گینگسٹر رحمٰن ڈکیت یا پھر شعیب خان جیسے جرم کے بے تاج بادشاہوں کی طرف مڑگیا۔
’کتنی حیرت کی بات ہے رحمٰن ڈکیت اور شعیب خان دونوں ایم کیو ایم کے بدترین مخالف سمجھے جاتے تھے۔‘ اس افسر نے سوال کیا۔
شعیب خان کی مشکوک و متنازع ہلاکت
جرائم پیشہ سمجھے جانے شعیب خان کا نام پاکستان میں سامنے آیا تو داؤد ابراہیم سے جڑا ہوا تھا۔
داؤد ابراہیم 12 مارچ 1993 کو انڈیا کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں ہونے والے 13 بم دھماکوں کے ملزم ہیں اور انڈیا کے سب سے مطلوب ملزم ہیں۔
کراچی پولیس کے اُس وقت کے سربراہ طارق جمیل کے مطابق خود شعیب خان قتل، اقدام قتل، اسلحہ اور اغوا جیسے جرائم کے 17 مقدمات میں مطلوب تھے۔
جبکہ شعیب خان پر یہ الزام بھی تھا کہ انھوں نے 27 دسمبر 1996 کو ایم کیو ایم کے دو کارکنوں ادریس پریڈی اور محمد اکبر کو قتل کر دیا تھا۔
شعیب خان کو چوہدری اسلم نے لاہور سے گرفتار کیا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 29 دسمبر 2004 کو کراچی منتقل کیا گیا۔
چوہدری اسلم کے ہاتھوں گرفتار اور سینٹرل جیل میں قید شعیب خان 27 جنوری 2005 کو کراچی کی سینٹرل جیل میں متنازع ’دل کا دورہ‘ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔
بعد ازاں اہلخانہ نے ذرائع ابلاغ کے سامنے خدشہ ظاہر کیا کہ شعیب خان کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔ اور اگر قواعد کے مطابق پوسٹ مارٹم کیا جاتا تو شعیب خان کی موت کی وجہ معلوم کی جاسکتی تھی۔
مگر کراچی ڈپٹی سپرنٹینڈینٹ جیل امان اللّہ نیازی اور جیل حکام اصرار کرتے رہے کہ انھیں سینے میں درد کی شکایت پر ہسپتال لایا گیا لیکن وہ ‘دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔’
معشوق بروہی یا رسول بخش؟
اب جنرل مشرف کے دور میں ہی چوہدری اسلم کی توجہ اور بندوق کا رُخ اندرون سندھ منتقل ہوا۔
مگر اس بار کام کے دھتّی اور قسمت کے دھنی چوہدری اسلم کو کام اور قسمت نے ہی دھوکہ دے دیا۔
11 جولائی 2006 جب چوہدری اسلم کراچی پولیس کی لیاری ٹاسک فورس (ایل ٹی ایف) کے سربراہ تھے تو پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایل ٹی ایف نے تھانہ گڈاپ کی حدود میں ایک ’مقابلے‘ میں معشوق بروہی نامی مطلوب ملزم کو ہلاک کر دیا ہے جو قتل و اقدام قتل، اغوا اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھا۔
اُس وقت کے ڈی آئی جی کراچی نیاز صدیقی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جب چوہدری اسلم اور اُن کی ٹیم نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو معشوق بروہی مزاحمت کرتے ہوئے مارا گیا۔
مگر جلد ہی مرنے والے کے اہلخانہ اس دعوے کی ساتھ سامنے آئے کہ ہلاک ہونے والا نہ تو معشوق بروہی تھا اور نہ ہی ملزم یا جرائم پیشہ، بلکہ دراصل رسول بخش تھا جس کا تعلق سندھ کے نواب شاہ کے قریب واقع شہر سکرنڈ سے تھا اور مرنے والا پئشے سے ہاری (کسان) تھا جسے سکرنڈ سے گرفتار کر کے کراچی لایا گیا اور کئی روز کی حراست کے بعد مشکوک و متنازع اور جعلی ‘پولیس مقابلے’ میں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا، تاکہ اس کے سر کی قیمت کے طور پر خطیر رقم اور ترقیاں حاصل کر سکیں۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس متنازع ’مقابلے‘ میں چوہدری اسلم، اس وقت کے لیاری کے ٹاؤن پولیس آفیسر (اور آج کے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی) عمر شاہد حامد، (آج کے ایس ایس پی ملیر) عرفان بہادر اور چوہدری اسلم کے کئی اور بھی قریبی ساتھی شریک تھے۔
اس دعوے اور ذرائع ابلاغ میں اس کی کوریج اور بڑھتے ہوئے عوامی و سیاسی دباؤ کے نتیجے میں اس وقت سندھ پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) جہانگیر مرزا نے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی جس نے جانچ پڑتال کے بعد لواحقین اور ذرائع ابلاغ کا دعویٰ درست تسلیم کیا اور 22 جولائی 2006 کو ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت سرکاری طور پر تسلیم کرلی ہے کہ مرنے والا معشوق بروہی نہیں تھا۔
پولیس کے اعتراف کے بعد چوہدری اسلم، عمر شاہد اور عرفان بہادر سمیت چوہدری اسلم کے کئی ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، کئی معطل اور گرفتار ہوئے اور چوہدری اسلم جیل بھیج دیے گئے۔
مگر بالآخر ان تمام افسران کو جلد ہی سپریم کورٹ نے عدالتی کارروائی کے بعد بے گناہ قرار دے کر باعزّت بری بھی کر دیا اور چوہدری اسلم سمیت کئی افسران اپنی ملازمتوں اور پولیس عہدوں پر بحال بھی کر دیے گئے۔
رحمٰن ڈکیت کا پولیس مقابلہ
اب 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو چوہدری اسلم کا رخ اس لیاری کی جانب ہوگیا کو اب بھی حکمران پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
لیاری میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور گینگ وار کے پیش نظر پولیس اور سندھ میں تعینات نیم فوجی ادارے رینجرز کی مشترکہ کارروائی شروع ہوئی اور مرکزی کردار کے طور پر ایک بار پھر چوہدری اسلم سامنے اور نمایاں نظر آئے۔
گینگ وار کے کئی نمایاں کردار آئے دن متنازع اور مشکوک ’پولیس مقابلوں‘ میں مارے جانے لگے جن میں سب سے بڑا نام رحمٰن ڈکیت کا تھا۔
لیاری کے بے تاج بادشاہ سمجھے جانے والے بدنام زمانہ گینگسٹر اور قتل، اقدام قتل، اغوا اور اغوا برائے تاوان اور منشیات فروشی جیسے سنگین جرائم کی درجنوں وارداتوں میں ملوّث سردار عبدالرحمٰن بلوچ (یا رحمٰن ڈکیت) جو پیپلز امن کمیٹی کے بانی سربراہ بھی سمجھے جاتے تھے، نو اگست 2009 کو چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے گئے۔
لیکن اہلیان لیاری ذرائع ابلاغ اور صحافی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہلاکت کے وقت رحمٰن ڈکیت بلوچستان سے گرفتار کر کے لائے گئے تھے جبکہ پولیس نے اُن سے مقابلے اور ان کی ہلاکت کہیں اور دکھائی تھی۔
طالبان، شدت پسند اور چوہدری اسلم
رحمٰن ڈکیت کے مرنے کے بعد ایک اور کارروائی میں چوہدری اسلم رحمٰن ڈکیت کے جانشین اور پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔
کچھ عرصے کے بعد چوہدری اسلم کو سی آئی ڈی میں تعینات کر دیا گیا جو شدت پسندوں مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور طالبان انتہا پسندوں کے خلاف نبرد آزما تھی۔
جلد ہی چوہدری اسلم طالبان، لشکر جھنگوی، اور مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ان شدت پسند اور انتہا پسند عناصر کے عین سامنے جا پہنچے، اور اب آئے دن اُن کے ہاتھوں ان عناصر اور اُن کی تنظیموں کے شدت پسند ارکان سے چوہدری اسلم کی قیادت میں سی آئی ڈی کے مسلح تصادم کی خبریں آنے لگیں۔
پاکستان بھر کے سیاسی و عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں بھی شدت پسندی کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائی کو سراہا جانے لگا تھا اور متنازع مسلح تصادم پر تنقید کم ہونے لگی۔ اب چوہدری اسلم ولن کم اور ہیرو زیادہ لگنے لگے تھے۔
سی آئی ڈی کے دفتر پر طالبان کا حملہ
ایسے میں خدشہ تھا چوہدری اسلم اب جو کچھ کر رہے ہیں اس کا جواب تو کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی روز ضرور آئے گا۔
اور یہ جواب 11 نومبر 2010 کو تب آیا جب کراچی کے سب سے محفوظ سمجھے جانے والے علاقے سول لائنز میں سی آئی ڈی کے دفتر پر بارود سے بھری ایک گاڑی سے حملہ ہوا اور قریباً 20 لوگ مارے گئے۔
حملے کی ذمہ داری طالبان اور لشکر جھنگوی نے قبول کی جن کے خلاف سی آئی ڈی خاص طور پر چوہدری اسلم بہت سرگرم تھے۔
مگر قسمت کے دھنی چوہدری اسلم اس حملے میں محفوظ رہے۔
گھر پر حملہ
مگر مزید حملوں کے خدشات بہرحال موجود رہے۔ ایسے میں طالبان اور لشکر جھنگوی نے چوہدری اسلم پر ایک اور وار تب کیا جب 19 ستمبر 2011 کو کراچی کے نسبتاً محفوظ سمجھے جانے والے علاقے ڈیفنس میں چوہدری اسلم کے گھر پر حملہ ہوا۔
اس بار بھی بارود سے بھری ایک گاڑی فیز ایٹ میں واقع اُن کے گھر کی دیوار سے ٹکرا دی گئی۔
خودکش حملہ سمجھے جانے والے اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے چھ چوہدری اسلم کے گھر پر تعینات پولیس اہلکار ایک راہگیر خاتون اور اُن کا بیٹا شامل تھے۔
قسمت کے دھنی چوہدری اسلم اس حملے میں بھی معجزانہ طور پر بچ گئے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔
عسکریت پسند تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے دعویٰ کیا کہ آئندہ بھی مزید پولیس حکام کو نشانہ بنایا جائے گا۔
دفتر کے بعد اپنے گھر پر اس حملے میں بھی بچ جانے والے چوہدری اسلم نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو قیامت تک نہیں چھوڑیں گے۔
جنوری کا ہلاکت خیز حملہ
بالآخر جمعرات 9 جنوری 2014 کو چوہدری اسلم خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئے اور بم سے ہونے والے حملے میں اپنے قریبی ساتھی کامران اور محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔
اس حملے سے چند گھنٹے قبل بھی انھوں نے ناردرن بائی پاس پر منگھوپیر کے علاقے میں ہونے والے ایک مبینہ ’پولیس مقابلے‘ میں تین طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔
پولیس افسران کے مطابق چوہدری اسلم پر یہ جان لیوا حملہ شام چار بجکر چالیس منٹ کے قریب شہر کے علاقے حسن سکوائر سے متّصل عیسیٰ نگری کے علاقے میں اس وقت ہوا جب چوہدری اسلم اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ڈرائیور کامران اور محافظ کے ہمراہ لیاری ایکسپریس وے سے دفتر کی سمت روانہ ہوئے۔
اگرچہ خطرات کے پیش نظر وہ خود بھی محتاط رہتے تھے اور سرکاری طور پر بھی انھیں بم حملے سے بھی محفوظ رہنے والی گاڑی فراہم کی گئی تھی مگر دھماکے کے وقت چوہدری اسلم کی ’بم پروف گاڑی مرمت کے لیے گئی ہوئی تھی۔‘
اس وقت کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نیاز کھوسو کے مطابق چوہدری اسلم کے حفاظتی قافلے (یا سکواڈ) میں شامل دوسری پولیس موبائل چوہدری اسلم ہی کے لیے دوا خریدنے گئی تھی۔
نیاز کھوسو کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ چوہدری اسلم پر حملہ کرنے والا خودکش بمبار سوزوکی پک اپ میں سوار اُن کا منتظر تھا۔
مبینہ خودکش بمبار کی شناخت 26 سالہ نعیم اﷲ صدیقی ولد رفیع اﷲ صدیقی کے نام سے کی گئی جو قصبہ کالونی کا رہائشی اور اس کا آبائی تعلق مہمند ایجنسی سے تھا اور نعیم نے عسکری تربیت مبینہ طور پر افغانستان سے حاصل کی تھی۔
اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی۔
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ’انھیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ تحریک طالبان کے پچاس سے زیادہ کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث تھے۔‘
پولیس حکام کے مطابق چوہدری اسلم کی ہلاکت کے کچھ ہی عرصے بعد کراچی پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں کہ چار گرفتار دہشت گردوں سید حسان علی، ظفر علی عرف سائیں، قاری محمدجاوید اور وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری اسلم کے گھر پر خودکش حملے میں ان کا قریبی گن مین پولیس اہلکار کامران ملوث تھا۔
حکام کے مطابق کامران پولیس میں بھرتی ہونے سے قبل لشکر جھنگوی سے وابستہ تھا اور لشکر کے رہنما سمجھے جانے والے نعیم بخاری سے رابطے میں تھا۔
ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کہتے ہیں کہ نعیم بخاری اب تک کسی سرکاری حراست میں ہیں اور دوران تفتیش عرفان بہادر کے سامنے تسلیم کر چکے ہیں کہ شدت پسندوں نے اپنے سارے زیر غور منصوے ترک کر کے چھ ماہ تک صرف چوہدری اسلم پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
عرفان بہادر کہتے ہیں کہ ’یہ جو آج میں اور آپ شہر میں گریبان کھول کر پھرتے ہیں یہ امن اُسی جیسے افسر قائم کر سکتے تھے۔‘
یہ داستان لکھنے کے بعد بھی میں طے نہیں کر سکا کہ چوہدری اسلم ہیرو تھے یا ولن۔۔۔
مگر یہ پاکستان کے قانون سازوں کو طے کرنا ہے کہ مجرم یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ جج کے قلم سے ہوگا یا پولیس افسر کی بندوق سے؟
اور یہ پاکستان کے معاشرے کو طے کرنا ہے کہ سڑک پر مسلح کون ہوگا؟ عسکریت پسند یا پھر پولیس افسر۔۔۔
اور یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ چوہدری اسلم ہیرو تھے یا ولن؟