چائنا یونٹ8 گھنٹے قبلافریقی رہنما بیجنگ میں ہر تین سال پر ہونے والے چین-افریقی سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہوئے تو چینی صدر شی جن پنگ کے پاس فخر کرنے کے لیے ایک چیز تھی: سیٹلائٹ ٹی وی۔تقریباً نو سال قبل صدر شی جن پنگ نے جوہانسبرگ میں چین-افریقہ تعاون فورم (فوکیک) میں شرکت کرنے والے سربراہان مملکت سے وعدہ کیا تھا کہ چین 23 افریقی ممالک میں دور افتادہ 10,000 سے زیادہ گاؤں اور قصبوں کو ڈیجیٹل ٹی وی تک رسائی فراہم کرے گا۔
اب تک 9600 سے زیادہ گاؤں کو سیٹلائٹ انفراسٹرکچر فراہم کیا جا چکا ہے اور اب یہ منصوبہ تکمیل کے قریب ہے۔چین-افریقہ کے اچھے تعلقات کے دوران یہ حوصلہ مندانہ پروجیکٹ سٹار ٹائمز نامی ایک نجی کمپنی کے سپرد کیا گیا تھا جو پہلے سے ہی کئی افریقی ممالک میں کام کر رہی تھی۔ جبکہ اس پروجیکٹ کو چینی حکومت کی جانب سے فنڈ کیا جا رہا تھا۔یہ بظاہر خیر سگالی کا مظاہرہ تھا جبکہ چین کے لیے یہ سٹریٹیجک اہمیت کے حامل خطے میں اپنی سافٹ پاور کو دکھانے کا موقع تھا۔اب چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور بیجنگ اپنی افریقہ کی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دے رہا ہے۔ بی بی سی نے کینیا کے چار گاؤں کا دورہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس سافٹ پاور کا فائدہ ہوا؟دارالحکومت نیروبی سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر اولاسیٹی گاؤں میں نکولس نگوکو نے ٹیلی ویژن پر پیرس اولمپکس میں کینیا کے کھلاڑیوں کو دوڑتے ہوئے دیکھنے کے لیے اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو جمع کیا تھا۔
انھوں نے سٹار ٹائمز کمپنی کی طرف سے تقریباً چار سال قبل سیٹلائٹ ڈش کی تنصیب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ‘میں اولمپکس کو دیکھ کر بہت خوش ہوں کیونکہ ہم کئی سالوں سے اسے نہیں دیکھ سکے تھے۔’وہ افریقہ بھر میں سٹار ٹائمز کی موجودگی کا فائدہ اٹھانے والے واحد شخص نہیں ہیں۔ سٹار ٹائمز کو سب سے پہلے سنہ 2008 میں براعظم میں متعارف کرایا گیا تھا جو کہ اب صحارا کے وسیع خطے یا جنوبی افریقی ممالک میں سب سے بڑے نجی ڈیجیٹل ٹی وی فراہم کنندگان میں سے ایک ہے۔ اس کے 16 ملین سے زیادہ صارفین ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کم قیمتوں نے ابتدائی طور پر اس کے قدم جمانے میں مدد کی۔کینیا میں ماہانہ ڈیجیٹل ٹی وی پیکجز 329 شیلنگ یعنی تقریبا ڈھائی امریکی ڈالر سے لے کر 1,799 شیلنگ یعنی 14 امریکی ڈالر ہے۔اس کے مقابلے میں ڈی ایس ٹی وی کا ماہانہ پیکج 700 شیلنگ سے لے کر ساڑھے دس ہزار شیلنگ تک ہے اور یہ افریقی ڈیجیٹل ٹی وی مارکیٹ میں ایک بڑا کھلاڑی ہے۔دوسری جانب سٹار ٹائمز اپنی بنیادی آمدنی کے لیے جزوی طور پر سبسکرپشنز پر انحصار کرتا ہے جبکہ اسے چین کے سرکاری پروجیکٹ ‘10,000 ولیج پروجیکٹ’ کے تحت حکومت چین کے سرکاری ’ساؤتھ-ساؤتھ اسسٹنس فنڈ‘ سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔
،تصویر کا کیپشنلوگ اولمپکس دیکھنے کے لیے ایک جگہ اکٹھا ہوئےچین کا تحفہتمام سیٹلائٹ ڈشز میں سٹار ٹائمز کے لوگو کے ساتھ کینیا کی وزارت اطلاعات کا نشان، اور چینی امداد کا سرخ لوگو موجود ہے۔ گاؤں والوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان ڈشز کی تنصیب کے دوران سٹار ٹائمز کے نمائندوں نے کہا کہ یہ چین کی طرف سے ان کے لیے ایک ‘تحفہ’ ہے۔افریقہ میں سٹار ٹائمز کی تجارت پر لکھنے والی ایک ماہر تعلیم ڈاکٹر انجیلا لیوس کے مطابق اس منصوبے میں افریقی سامعین کے لیے چین کی مثبت تصویر پیش کرنے کی صلاحیت ہے۔پروجیکٹ کے تحت دیہاتیوں کو بظاہر ہر چیز مفت میں فراہم کی گئی۔ ان میں انفراسٹرکچر، سیٹلائٹ ڈش، بیٹری، اور انسٹالیشن کے ساتھ ساتھ سٹار ٹائمز کے مواد کا سبسکرپشن بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر لیوس کے مطابق یہ ایک ‘گیم چینجر’ تھا کیونکہ افریقہ کے دور دراز دیہات میں پہلے زیادہ تر ناقابل بھروسہ اینالاگ ٹی وی ہی تھے۔انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں تک سیٹلائٹ ڈشز پہلی بار پہنچے تھے اور اس تبدیلی نے گاؤں والوں کے بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔مغربی کینیا کے آئنوموئی گاؤں میں ہسپتالوں اور سکولوں جیسے کمیونٹی سینٹرز کے لیے سبسکرپشنز مفت ہیں۔مقامی کلینک کے ویٹنگ روم میں ایک ڈیجیٹل ٹی وی مریضوں کو وقت گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ اور ایک پرائمری سکول میں بچے سکول کے بعد کارٹون سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سکول کی آٹھویں جماعت کی طالبہ روتھ چیلانگٹ نے کہا: ‘سکول کا کام ختم کرنے کے بعد، ہم سب مل کر کارٹون دیکھتے ہیں اور یہ ایک بہت ہی خوشگوار اور ہم آہنگ کرنے والا تجربہ ہے۔’تاہم بی بی سی نے جن لوگوں کا انٹرویو لیا ان میں سے کینیا کے بہت سے گھرانوں نے بتایا کہ ان کا مفت ٹرائل غیر متوقع طور پر صرف ایک محدود وقت تک جاری رہا۔سٹار ٹائمز کی نسبتاً سستی قیمت کے باوجود سبسکرپشنز بہت سوں کے لیے ایک مالی بوجھ تھا۔اس کے ساتھ ہی چین کے منصوبے سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے بعض میں پہلا سا جوش نہیں رہا۔ اس سے چین خیر سگالی کو فروغ دینے کے منصوبے کو دھچکہ لگا۔کریچو کاؤنٹی کے چیموری گاؤں سے تعلق رکھنے والی روز چیپکموئی نے کہا: ‘جب ہمیں پہلی بار سیٹلائٹ ڈش ملی تو ہم سب بہت خوش تھے، لیکن یہ صرف چند ماہ تک ہی مفت تھی، اور اس کے بعد ہمیں ادائیگی کرنا پڑی جو کہ ہمارے لیے بہت زیادہ تھا۔ ’اس لیے ہم نے اسے استعمال کرنا چھوڑ دیا۔’
سبسکرپشن کے بغیر صرف کچھ مفت چینلز ہی دستیاب ہیں۔ ان میں کینیا براڈکاسٹنگ کاپریشن بھی شامل ہے۔ یہ باتیں ان لوگوں نے بتائیں جو اب سٹار ٹائمز کے سبسکرائبر نہیں ہیں۔،تصویر کا کیپشنکینیا کے ایک گاؤں میں ایک گھر پر نصب سیٹلائٹ ٹی وی ڈشبی بی سی کا دورہسنہ 2018 سے 2020 تک سٹار ٹائمز کے ڈشز حاصل کرنے والے چار مختلف گاؤں میں بی بی سی کے دورے کے دوران بہت سے دیہاتیوں نے بتایا کہ مفت ٹرائل ختم ہونے کے بعد انھوں نے سٹار ٹائمز کا سبسکرپشن نہیں لیا۔آئیناموئی کے مکھیا نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے 25 گھروں نے ٹی وی سبسکرپشن لینے سے اجتناب کیا۔بی بی سی نے مفت ٹرائلز کے متعلق سٹار ٹائمز سے رابطہ کیا لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
چین کے اثرات سٹار ٹائمز چینلز پر نشر ہونے والے مواد پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سب سے سستے پیکجز میں بھی کنگ فو اور سینو ڈرامہ جیسے چینلز شامل ہیں، جن میں زیادہ تر چینی فلمیں اور سیریز دکھائی جاتی ہیں۔سٹار ٹائمز کے تعلقات عامہ کے سربراہ ما شاؤونگ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ سنہ 2023 میں ایک ہزار سے زیادہ چینی فلموں اور ٹی وی شوز کو مقامی زبانوں میں ڈب کیا گیا تھا۔ کینیا کے معاملے میں کمپنی نے سنہ 2014 میں ایس ٹی سواحلی کے نام سے ایک چینل شروع کیا، جو سواحلی مواد کے لیے وقف تھا۔
جنھوں نے چینی شوز دیکھے ہیں ان میں سے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی پروگرامنگ پرانی لگتی ہے، جس میں چینی کرداروں کو سطحی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور شوز اکثر دقیانوسی موضوعات کے گرد مرکوز ہوتے ہیں۔جب آپ گائیڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو ڈیٹنگ یا رومانس پر مبنی شوز کی بہتات نظر آتی ہے۔ ان میں ’ہیلو، مسٹر رائٹ‘ نامی ایک مشہور رئیلٹی شو بھی شامل ہے جس میں شریک مقابلہ کرنے والے اپنا بہترین جوڑا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ فارمیٹ چین میں اسی طرح کے ایک شو پر تیار کیا گیا ہے جسے ‘اف یو آر دی ون’ یعنی ‘کہیں وہ آپ تو نہیں’ کہتے ہیں۔
بعض لوگوں کے لیے یہ پروگرام ہی سبسکرپشن جاری رکھنے کی ایک وجہ ہے۔ اولاسیٹی گاؤں سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ ایریانا نیشن نگوٹیک کو کچھ شوز کا جنون ہے۔ ان مین چینی سیریز ‘ایٹرنل لو’ (لازوال محبت) ہے اور اسے انگریزی میں ڈب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے دیکھے بغیر نہیں سوتے۔،تصویر کا کیپشنافریقی ممالک میں سیٹلائٹ ٹی کی پہنچفٹبال میچز سے بھیڑ جمع ہو جاتی ہےبہرحال فٹبال افریقی ناظرین کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہے۔ مثال کے طور پر کنفیڈریشن آف افریقن فٹبال کے مطابق سنہ 2023 میں افریقہ کپ آف نیشنز (ایفکون) کو عالمی سطح پر تقریباً دو ارب لوگوں کی ریکارڈ تعداد نے دیکھا تھا۔اس کاروباری موقع سے آگاہ سٹار ٹائمز نے فٹبال میچوں کے نشریاتی حقوق کو حاصل کرنے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور اس نے ایفکون سمیت سپین کی لا لیگا اور جرمنی کی بنڈس لیگا کی بولی لگائی ہے۔
ڈاکٹر لیوس نے وضاحت کی کہ سپورٹس براڈکاسٹنگ وہ شعبہ ہے جس میں ’سٹار ٹائمز نے اپنا نام بنایا ہے۔’تاہم مقابلہ سخت ہے اور ملٹی چوائس کا ایک ذیلی ادارہ سپر سپورٹ ہر سال انگلش پریميئر لیگ کو نشر کرنے کے لیے 20 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے۔فرانسیسی فٹبال کے میگا سٹار کیلیان ایمباپے نے جب اعلان کیا کہ وہ سپین کے ریئل میڈرڈ میں شامل ہو رہے ہیں، سٹار ٹائمز نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور نیروبی میں بڑے بڑے بل بورڈز لگائے جن پر ‘فیل دی فل تھرل آف لا لیگا’ یعنی ’لا ليگا کا پورا مزہ لیجیے‘ لکھا تھا۔تاہم یہ سب کے لیے کام نہیں کرتا۔ فٹبال کے ایک مداح نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ‘پریمیئر لیگ کے سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہوں گے۔’نیروبی کی ڈے سٹار یونیورسٹی کے پروفیسر لیوی اوبونیو نے وضاحت کی کہ ‘کینیا کی اکثریت لا لیگا سے زیادہ انگلش پریمیئر لیگ میں دلچسپی رکھتی ہے۔’جبکہ بی بی سی اور سی این این کے برعکس دنیا کے سامنے چین کو پیش کرنے والا ریاستی براڈکاسٹرز سی جی ٹی این بھی سستے ترین سبسکرپشن میں شامل ہے۔ تاہم یہ ناظرین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتا ہے۔
کیریچو کاؤنٹی کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر للی روٹو نے کہا کہ ‘ہمارے چینلز میں چینی خبریں بھی ہیں، لیکن میں اسے نہیں دیکھتی۔’شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ڈاکٹر دانی میڈرڈ موریلز کا کہنا ہے کہ سٹار ٹائمز نے (افریقی) خبروں کے ماحول میں انقلاب نہیں برپا کیا ہے۔زیادہ تر گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مقامی نیوز چینلز کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور سٹار ٹائمز اس بات کو سمجھتا ہے۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق اس کے 5,000 افریقی عملے میں سے 95 فیصد سے زیادہ مقامی ہونے کے ساتھ، اس کا مقصد خود کو افریقی آوازوں کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرنا ہے۔افریقہ میں چینی میڈیا کمپنیوں کے ایک مشیر نے کہا کہ سٹار ٹائمز کوشش کر رہا ہے کہ اس کا ٹِک ٹِک یا ہواوے جیسا حال نہ ہو کیونکہ اس نے چین کو زیادہ پیش کیا جس سے مغربی ممالک میں پسند نہیں کیا گیا اور اس کے خلاف اعلیٰ سطح پر جانچ پڑتال کی گئی۔ڈاکٹر لیوس کا سنہ 2015 سے 2019 تک کے درمیان نشر ہونے والی خبروں کا مطالعہ اس بات کو تقویت دیتا ہے۔
اس میں یہ کہا گیا ہے کہ سٹار ٹائمز پر پیش کی جانے والی زیادہ تر خبریں چین یا چین-افریقہ تعلقات کا حوالہ نہیں دیتی ہیں۔ کمپنی محتاط دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی چینی جڑوں کو ظاہر نہ کرے۔،تصویر کا کیپشنلا لیگا کو سٹارٹائمزمقبول بنانا چاہتی ہے’چین کی مثبت عکاسی‘ایک نجی کمپنی کے طور پر سٹار ٹائمز نے گذشتہ برسوں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اور ‘10,000 ولیج پروجیکٹ’ نے کمپنی کو شہرت کی ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔بہر حال بیجنگ ایک اور فوکیک کی میزبانی کر رہا لیکن اس نے اس منصوبے کے تحت اپنی جو امیج بنانے کی کوشش کی تھی اس مقصد کو حاصل کرنے کے معاملے میں پورا نہیں اترا ہے۔ڈاکٹر میڈرڈ موریلس نے کہا: ‘حکومت کی جانب سے معلومات کی ترسیل کو متوازن کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ چین پر مثبت روشنی پڑے لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ’اس میں جتنا پیسہ لگا، اس سے چینی حکومت کو واقعی اتنا فائدہ نہیں ہوا۔’
بہت سے گاؤں والے جن سے بی بی سی نے بات کی وہ زیادہ تر مواد اور اخراجات کے بارے میں فکر مند تھے۔ خود سیٹلائٹ ڈشز میں سے کئی زنگ آلود ہو گئے ہیں۔ یہ منصوبہ جس پر کبھی پورے شہر میں بات ہوتی تھی بظاہر چین کی سافٹ پاور دکھانے کے عزم کو لے کر اپنے اختتام تک پہنچ رہا ہے۔ سبسکرپشن منسوخ کرانے والے ایک شخص نے بتایا کہ ’جی ہاں، ہمیں پتا ہے کہ یہ چین سے آتا ہے۔ لیکن اس چیز سے فرق نہیں پڑتا اگر کوئی بھی اسے استعمال نہیں کرے گا۔‘