یہ 27 جون کا دن ہے، گاؤں میں سورج چمک رہا ہے اور سب لوگ گاؤں کے چوراہے پر جمع ہیں۔ بچوں نے پہلے سے چھوٹے چھوٹے پتھر اکٹھے کر رکھے ہیں اور گاؤں کے بزرگ مرد اپنی روایتی گفتگو میں مصروف ہیں۔ سب لاٹری کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
مسٹر سمرز، جو ہر سال لاٹری کی نگرانی کرتے ہیں، ایک پرانا لکڑی کا صندوق اٹھا کر چوراہے میں لاتے ہیں۔ یہ صندوق کئی سالوں سے اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، اور لوگ اسے بے حد مقدس سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کی حالت کافی بگڑ چکی ہے۔ مسٹر سمرز سب کو یاد دلاتے ہیں کہ لاٹری کے قوانین کو ہمیشہ کی طرح سختی سے عمل میں لایا جائے گا۔
لاٹری میں ہر گھر کے سربراہ کو ایک پرچی نکالنی ہوتی ہے۔ تمام پرچیاں خالی ہوتی ہیں سوائے ایک کے، جس پر ایک سیاہ نشان ہوتا ہے۔ جو شخص یہ نشان والی پرچی نکالے گا، اسے “جیتنے والا” سمجھا جاتا ہے۔ گاؤں کے لوگ آہستہ آہستہ قطار میں آ کر پرچیاں نکالتے ہیں اور واپس اپنے خاندان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک عجیب خاموشی چھا جاتی ہے جب سب اپنے اپنے ہاتھ میں بند پرچیاں کھولتے ہیں۔
آخر کار، بل ہچنسن کا خاندان منتخب ہوتا ہے۔ بل کی بیوی، ٹسی، شور مچاتی ہے کہ یہ لاٹری غلط ہوئی ہے اور اسے دوبارہ منعقد کیا جانا چاہیے، لیکن کوئی اس کی بات پر توجہ نہیں دیتا۔ اب ہچنسن خاندان کے افراد میں سے ہر ایک کے لیے دوبارہ پرچیاں نکالی جاتی ہیں۔ اس بار، ٹسی ہچنسن وہ بدقسمت فرد ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں سیاہ نشان والی پرچی آتی ہے۔
یہاں گاؤں والوں کی روایتی بے رحمی سامنے آتی ہے۔ سب لوگ، جن میں بچے، مرد اور عورتیں شامل ہیں، ٹسی کو گھیر لیتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں پہلے سے اکٹھے کیے ہوئے پتھروں کو اٹھاتے ہیں اور اسے مارنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ٹسی چیختی ہے کہ یہ انصاف نہیں، لیکن کوئی اسے سننے والا نہیں ہوتا۔ گاؤں کے لوگ اس پر پتھر برسانا شروع کر دیتے ہیں اور وہ جلد ہی زمین پر گر کر ساکت ہو جاتی ہے۔
————–
کہانی کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ لوگ بلا سوچے سمجھے قدیم اور بے معنی روایات کو کیسے جاری رکھتے ہیں، چاہے وہ کتنی ہی ظالمانہ کیوں نہ ہوں۔
ابنِ یوسف