49 منٹ قبل برطانیہ میں نوزائیدہ بچوں کے وارڈ سے ایک بچے کو اغوا کرنے کی سازش کے الزام سے بری ہونے والی نرس کا کہنا ہے کہ انصاف کے حصول کی کوشش نے انھیں ’تباہ‘ کر دیا ہے۔صفیہ احمدی پر الزام تھا کہ انھوں نے وولورہیمپٹن کے نیو کراس ہسپتال سے ایک بچے کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔
لیکن 11 دن کی سماعت کے بعد جیوری نے محض 48 منٹ میں انھیں اس الزام سے بری کر دیا۔صفیہ احمدی کو رواں سال فروری میں بچے کے اغوا کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ صفیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک غلط الزام کی وجہ سے میری ساکھ، میرا وقار، میرا کریئر ختم ہو گیا، سب کُچھ برباد ہو گیا ہے۔‘صفیہ احمدی دو بچوں کی ماں ہیں۔ انھیں چھ ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔
اس دوران انھیں بس اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار تھا۔ سماعت کے دوران انھوں نے بتایا کہ جیل میں دوسرے قیدیوں نے ان پر تین بار حملہ کیا تھا۔صفیہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کی وجہ سے اپنے گھر والوں سے بھی رابطہ نہیں کر پائیں کیونکہ فون کال کرنے کے لیے انتظامیہ سے اجازت لینے میں انھیں چار ماہ لگ گئے تھے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جیل نے مجھے توڑ دیا، جیل کے اندھیرے اور گُھٹن زدہ ماحول میں بس میں اپنے دو معصوم بچوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھی کہ اُن پر کیا گُزر رہی ہو گی۔‘سنہ 2011 میں افغانستان سے برطانیہ پہنچنے والی صفیہ نے 2022 میں وولورہیمپٹن یونیورسٹی میں نرسنگ کورس کے لیے داخلہ لیا تھا۔وہ اس کورس کے دوسرے سال میں تھیں اور شہر کے ہسپتال میں تربیت حاصل کر رہی تھی جب انھیں بچے کے اغوا الزام کا سامنا کرنا پڑا۔صفیہ کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں حال ہی میں ماں بننے والی ایک خاتون سے ہونے والی ملاقات نے انھیں جیل تک پہنچا دیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس ماں سے ہونے والی ملاقات کے بعد اُن پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے بچے کے اغوا کی کوشش کی جس کے بعد انھیں ایک تکلیف دہ وقت اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔صفیہ کا کہنا تھا کہ جس خاتون سے وارڈ کے باہر اُن کی ملاقات ہوئی تھی انھیں یہ فکر تھی کہ نہ جانے اُن کے بچے کو کہاں اور کس حال میں رکھا گیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ کیونکہ انھیں اردو زبان آتی تھی تو انھوں نے اس بچے کی ماں کو تسلی دی اور کہا کہ وہ سمجھ سکتی ہیں کہ کسی خاتون رشتہ دار کے بغیر اس طرح کے معاملات سنبھالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ دوبارہ اسی دن بچے کے لیے کمبل لے کر آئیں مگر اُس وقت تک اُن کی ڈیوٹی ختم کا وقت ہو چُکا تھا۔
ہسپتال کی انتظامیہ کے ایک فرد نے انھیں بتایا کہ ڈیوٹی اوقات ختم ہونے کے بعد نرس کے یونیفارم میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔صفیہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی میں واپس آئیں، خود کو ایک دوسرے کپڑے سے ڈھکا اور اُس خاتون کمبل دینے کی غرض سے واپس وارڈ کی جانب گئیں۔اگلے دن انھیں یونیورسٹی سے فون آیا کہ انھیں معطل کر دیا گیا ہے۔ صفیہ کہتی ہیں کہ ’میں واقعی حیران تھی کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’یہ یونیفارم میرا خواب تھا۔ میں تو بس اس سوچ میں تھی کہ مُجھ سے کیا غلط ہوا۔۔۔ مُجھے اس بات کا یقین تھا کہ میں اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں نبھا رہی تھی۔‘’وہ میری زندگی کا سیاہ دن تھا‘صفیہ کہتی ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال سے دور رہنے کی ہدایت کے باوجود وہ اگلے روز دوبارہ ہسپتال گئیں۔ انھیں لگا تھا کہ ہو سکتا ہے انجانے میں انھوں نے اس خاتون کو ناراض کر دیا ہو۔
وہ بچے کے لیے کپڑے بھی تحفے میں لے کر گئیں کیونکہ وہ اس خاتون سے معافی ماگنا چاہتی تھیں۔لیکن جب وہ ہسپتال پہنچیں تو ہسپتال کے عملے نے انھیں گھیر لیا اور پولیس کو بلا لیا۔صفیہ کہتی ہیں، ’وہ مجھے بولنے نہیں دے رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے یا میری کیا غلطی ہے۔‘’میری گرفتاری کا دن میری زندگی کا سیاہ دن تھا۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں ٹوٹ گئی ہوں۔‘مقدمے کی کارروائی کے دوران استغاثہ نے مؤقف اپنایا کہ صفیہ ایسے بچے کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں جسے وہ اپنا بتا سکیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ صفیہ نے اپنے دوسرے شوہر سے جھوٹ بولا ہوا تھا کہ وہ جڑواں لڑکوں کی ماں بننے والی ہیں۔صفیہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنے شوہر سے جھوٹ بولا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہت مشکل صورتحال سے دوچار تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ڈر تھا کہ اگر میں نے انھیں سچ بتایا تو شاید وہ ناراض ہو جائیں اور مجھے چھوڑ دیں۔‘صفیہ کا نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں بار بار آنا، کپڑے تبدیل کرنا اور بچوں کے کپڑے خریدنا ان سب عوامل کو استغاثہ نے ان کے خلاف مقدمے کا حصہ بنایا تھا۔لیکن انھوں نے بارہا اصرار کیا کہ وہ کسی بچے کو اغوا کرکے اپنا بتانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھیں۔صفیہ کہتی ہیں ’میں ایک ماں ہوں، میں کیسے کسی دوسری ماں کو دکھ دے سکتی ہوں؟‘16 اگست کو جیوری نے اس فیصلے پر پہنچنے میں ایک گھنٹے سے کم وقت لیا کہ صفیہ قصوروار نہیں ہیں۔صفیہ کہتی ہیں کہ وہ اس فیصلے کو سن کر خوشی سے رو پڑیں لیکن یہ ان کی مشکلات کا اختتام نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ آج بھی جب وہ اپنی آنکھیں بند کرتی ہیں تو انھیں چابیوں اور زنجیر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ان کا کہنا ہے ان کے بارے میں آن لائن پھیلنے والی افواہیں اور غلط معلومات تباہ کن تھیں۔صفیہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر والے انھیں سوشل میڈیا استعمال کرنے یا خبریں دیکھنے نہیں دیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے کچھ دیکھ لیا تو اس سے انھیں بہت دکھ پہنچے گا۔انھیں یقین ہے کہ انھیں اپنے پہلے شوہر سے علیحدگی اور تعلیم اور کیریئر کے حصول کی وجہ سے افغان کمیونٹی میں تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ذہن میں تھا کہ یہ مجھے مشکل میں ڈالنے کا ایک منصوبہ تھا۔‘اپنے اس تلخ تجربے کے باوجود صفیہ اب بھی نرسنگ میں اپنا کیریئر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ وہ دوبارہ کسی کورس میں داخلہ لے لیں گی۔آن کا کہنا ہے کہ ’میں ایک مضبوط ماں ہوں۔ میں اپنی ڈگری تو حاصل کر لوں گی لیکن مجھے فکر یہ ہے کہ مستقبل میں کسی اور کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘ویسٹ مڈلینڈز پولیس کا کہنا ہے کہا کہ اس نے عدالت کے فیصلے کو قبول کر لیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے کیس سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے ساتھ ان کی ہمدردیاں ہیں۔کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ الزام عائد کرنے سے پہلے مقدمے کے شواہد کا ’احتیاط سے جائزہ‘ لیا گیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا کراؤن پراسیکیوشن کا کام نہیں کہ آیا کوئی شخص قصوروار ہے یا نہیں۔ ’ہم اس بارے میں آزادانہ فیصلے کرتے ہیں کہ کسی مقدمے کو عدالت میں کب پیش کرنا مناسب ہو گا۔‘’انھیں بری کر دیا گیا ہے اور ہم جیوری کے اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔‘یونیورسٹی آف وولور ہیمپٹن کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور جب تک اس کا نتیجہ نہیں آ جاتا صفیہ معطل رہیں گی۔دوسری جانب نیو کراس ہسپتال کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔