گرے وولوز کون ہیں اور کئی ممالک میں ان پر پابندی کیوں ہے؟

0
34
گرے وولوز کون ہیں اور کئی ممالک میں ان پر پابندی کیوں ہے؟ - BBC News اردو

ترکی کی ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی تحریک ’گرے وولوز‘ یا ’سرمئی بھیڑیے‘ دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہے۔ اسی طرح ان کے ہاتھ کے اشارے بھی توجہ حاصل کر رہے ہیں جس میں وہ ہاتھ اور انگلیوں سے ایسی شکل بناتے ہیں جو بھیڑیے کے سر کی عکاسی کرتی ہے۔حال ہی میں یورو 2024 فٹبال چیمپیئن شپ میں ’وولف سیلوٹ‘ نے اس وقت بڑا تنازع کھڑا کر دیا تھا جب ترک کھلاڑی میرخ دیمیرال نے آسٹریا کے خلاف ترکی کے میچ میں گول کرنے کے بعد وولف سیلوٹ کیا تھا۔ ان کے گول کی وجہ سے ان کی ٹیم ترکی نے آسٹریا کے خلاف ایک کے مقابلے میں دو گول سے جیت لیا تھا۔

جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فشر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ترکی کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی علامتوں کی ہمارے سٹیڈیمز میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘ بعد میں یورپین یونین فٹ بال اسوسی ایشن نے دیمیرال کو دو میچوں کے لیے معطل کر دیا تھا۔ترکی نے وولف سیلوٹ پر تنقید کے لیے برلن پر ’زینو فوبیا‘ یا غیرملکیوں سے نفرت کا الزام لگاتے ہوئے جوابی حملہ کیا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے فٹ بالر دیمیرال کے دفاع میں کہا تھا کہ ’کیا کوئی پوچھتا ہے کہ جرمنی کی قومی ٹیم کی جرسی پر عقاب کیوں ہے، یا فرانسیسی جرسی پر مرغ کیوں ہے؟

میرخ نے اس اشارے سے بس اپنا جوش ظاہر کیا۔‘بہت سے لوگوں کے لیے ’وولف سیلوٹ‘ براہ راست گرے وولوز آرگنائزیشن سے وابستہ ہے، جسے ’آئیڈیلسٹ ہرتھز‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کا انتہائی قوم پرست یوتھ ونگ ہے جو کہ صدر اردوغان کی حکمران جماعات اے کے پی کا اتحادی ہے۔جرمنی میں نہ تو بھیڑیوں کی سلامی اور نہ ہی گرے وولوز تنظیم پر پابندی ہے۔

آسٹریا اور فرانس نے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا اور آسٹریا نے اس اشارے پر پابندی لگا دی اور بعد میں تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی۔

دائیں بازو کا انتہا پسند گروپ‘برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کی ایک سینیئر ریسرچ فیلو برکو اوزسلِک کہتے ہیں کہ ’جب ہم کہتے ہیں کہ جرمنی میں بھورے بھیڑیوں کی تحریک ہے، تو ہم اصل میں جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ کلبوں، کافی ہاؤسز، مقامی انجمنوں کا ایک وسیع تر ماحولیاتی نظام ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ جرمنی میں گرے وولوز کے ساتھ خود کو منسلک کرتے ہیں ان کے گروپ سے منسلک ہونے، رکنیت یا وابستگی کے مختلف درجات ہوتے ہیں اور وہ زیادہ تر اپنی وابستگی میں زیادہ پختہ نہیں ہوتے۔جرمنی کا وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین (بی ایف وی) گرے وولوز کے ارکان کی 18,500 سے 20,000 تعداد بتاتا ہے اور اسی کی دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے۔جرمنی میں سب سے بڑی واحد نسلی اقلیت ترکوں پر مبنی ہے جن کی تعداد کل 30 لاکھ ترک شہری اور ترک نسل کے جرمن شہری ہیں۔ جرمنی کی کل آبادی تقریباً 84 ملین یعنی آٹھ کروڑ 40 لاکھ ہے۔

میں قوم پرستی کے ماہر صحافی کمال جان کا کہنا ہے کہ ’یورپ میں ترک باشندوں کی اکثریت میں قوم پرستانہ رجحانات اور علامتیں کافی مضبوط ہیں۔‘ان کے مطابق یورپ میں اسلام پسند اور قوم پرست منظم ہیں۔ اس لیے یورپی حکومتوں کو عام طور پر اس بات پر تشویش ہے کہ یہ سیاسی تنظیمیں، یا مجرمانہ گروپس ان ممالک میں کشیدگی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔’وہ ایک ایسا میکانزم متعارف کروانا چاہتے ہیں جس سے نہ صرف وہ اپنے دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں کو بلکہ تارکین وطن کمیونٹیز کے اندر بھی اس کی روک تھام کر سکیں۔

پرتشدد کارروائیگرے وولوز پر 1970 کی دہائی سے ترکی اور یورپ دونوں میں تشدد کی مختلف کارروائیوں کا الزام ہے۔تنظیم کی جانب سے کیے گئے واقعات میں سے سب سے نمایاں گرے وولوز کے رکن محمد علی آغا کا سنہ 1981 میں پوپ جان پال دوم پر قاتلانہ حملہ تھا۔ حملے میں کیتھولک چرچ کے سربراہ زخمی ہو گئے تھے۔

یہ گروپ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ترکی میں سڑکوں پر ہونے والی جھڑپوں میں بھی ملوث تھا، جب اس کے ارکان بائیں بازو کے عسکریت پسندوں کے ساتھ شہر کے اندر گوریلا جنگ میں مصروف تھے۔گرے وولوز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ’ترکی کی ڈیپ سٹیٹ‘ سے ہے، جو ترکی کے سیاسی اور بیوروکریٹک ڈھانچے کے اندر جمہوریت مخالف اتحادوں کا مبینہ طاقتور نیٹ ورک ہے۔

حالیہ برسوں میں بھی یورپی قصبوں میں گرے وولوز کے ساتھ مختلف سڑکوں پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔سیاسی تجزیہ کار بورجو اوزلیک کا کہنا ہے کہ ان واقعات نے خوف کا ماحول پیدا کیا ہے اور اسی وجہ سے اس گروپ کا کیا کرنا ہے اس پر وسیع پیمانے پر بحث چھڑ گئی ہے۔اگرچہ جرمنی میں یہ گروپ متنازع ہے لیکن گرے وولوز کوئی غیر قانونی گروپ نہیں ہے۔ لیکن آسٹریا نے سنہ 2019 میں وولف سیلوٹ کے استعمال پر پابندی لگا دی جبکہ فرانس نے 2020 میں گرے وولوز کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔

سنہ 2021 میں یورپی پارلیمنٹ نے گرے وولوز کو یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا۔تنظیم کے متعلق تنازع یورپ کی سرحدوں سے باہر بھی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس گروپ نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد سنہ 1991 میں ترکی سے قریبی تاریخی اور لسانی روابط رکھنے والے ملک آذربائیجان میں ملک کی مضبوط ہوتی ہوئی قوم پرستی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔بی بی سی نیوز آذربائیجان کی ایڈیٹر کونول خلیلووا کہتی ہیں کہ ’گرے وولوز والے موجودہ صدر الہام علیئیف کے والد حیدر علیئیف کے خلاف 1995 میں بغاوت کی ناکام کوشش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بعد آذربائیجان میں متنازع ہو گئے تھے۔روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابق جنرل حیدر علیئیف نے اس گروپ کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھا۔

نتیجے کے طور پر آذربائیجان میں گرے وولوز پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے رہنما کو بغاوت کی کوشش کے دوران ہلاک کر دیا گیا۔سنہ 2005 میں زبان اور ثقافت کے لحاظ سے ترکی سے متعدد تاریخی روابط رکھنے والے وسطی ایشیائی ملک قزاقستان نے بھی اس تنظیم کو ‘دہشت گرد گروپ’ کے طور پر غیر قانونی قرار دیا۔ترکی کا کہنا ہے کہ گرے وولوز نامی کوئی تحریک نہیں ہے اور یہ کہ ’وولف سیلوٹ‘ پر پابندی ناقابل قبول ہے۔

بھیڑیا بطور علامتاستنبول کی یدیطیب یونیورسٹی میں ترک زبان اور ادب کے شعبے کے پروفیسر احمد تسغیل نے انادولو خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ’بھیڑیے کی علامت ترکوں کی اہم ترین علامتوں میں سے ایک ہے۔‘انھوں نے کہا کہ وسطی ایشیا میں رہنے والے تمام ترک قبائل نے چوتھی اور پانچویں صدی میں اس علامت کو استعمال کیا ہے۔انھوں نے 12ویں اور 13ویں صدی کے لٹریچر کے بارے میں بھی بات کی جس میں آرمینیائی، سیریاک اور مشرق وسطیٰ کے دیگر افسانوں کے مطابق بھیڑیے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ترکوں نے اناطولیہ پہنچنے پر ایک بھیڑیے کی پیروی کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’ترکوں کے لیے، بھیڑیا ایک رہنما علامت ہے، جو حکمت کی نمائندگی کرتا ہے۔‘عثمانی دور کے دوران 19ویں صدی کے آخر میں بھیڑیے کی علامت کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا گیا ہے اور جدید ترکی کے ابتدائی سالوں میں یہ بینک نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں پر بھی ظاہر ہوا ہے۔بہر حال بھیڑیے کے سیلوٹ والی بات حالیہ ہے۔ کونول خلیلووا کا کہنا ہے کہ یہ آذربائیجان میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران ابھرا۔

ان مظاہروں نے ملک کی آزادی اور سوویت یونین کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اشارہ، چاہے وسیع پیمانے پر استعمال نہ کیا جائے، کچھ لوگوں کے لیے ترک ہونے کی علامت بن گیا۔‘وہ کہتی ہیں: ’ان کے لیے یہ ثقافتی اور نسلی شناخت کی علامت تھی جسے سوویت دور حکومت میں دبا دیا گیا تھا۔’خیال کیا جاتا ہے کہ ترکی میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے بانی نے 1992 میں آذربائیجان میں ایک ریلی کے دوران بھیڑیے کی سلامی کا استعمال دیکھا اور اسے ترکی میں گرے وولوز کی علامت کے طور پر اپنایا۔’قومی علامت نہیں‘قوم پرستی سے متعلق تحقیق کرنے والے کمال جان کہتے ہیں کہ ’1990 کی دہائی میں گرے وولوز قوم پرستانہ جذبات کی عمومی لہر میں تھے اور کرد اقلیت کے خاتمے کے حامی تھے۔‘

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترکی میں بہت سے سیاسی رہنماؤں نے قوم پرست ووٹروں کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے وولف سیلوٹ کا استعمال کیا۔’تاہم اس سیلوٹ کو ترکی میں قومی علامت کے طور پر کبھی قبول نہیں کیا گیا۔‘بورجو اوزیلک کو اس بات سے اتفاق ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے ترک اپنے ترک قوم پرست جذبات اور شناخت پر بہت فخر کرتے ہیں تاہم وہ خود کو گرے وولوز کے ساتھ نہیں جوڑتے ہیں۔’’لہذا، یہ متحد کرنے والی علامت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ترکی سے متعلق وسیع تر احساس کی نمائندہ ہے۔‘

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں