ارشد ندیم کے ساتھ نوح بٹ کیوں نہیں: کیا پاکستان پیرس اولمپکس میں ایک سے زیادہ میڈل جیت سکتا تھا؟

0
31
ارشد ندیم کے ساتھ نوح بٹ کیوں نہیں: کیا پاکستان پیرس اولمپکس میں ایک سے زیادہ میڈل جیت سکتا تھا؟ - BBC News اردو

پاکستان نے رواں ماہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اختتام پذیر ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں صرف ایک تمغہ جیتا جو جیولن تھرو میں ارشد ندیم کے نئے اولمپک ریکارڈ کے نتیجے میں ملنے والا سونے کا تمغہ تھا۔جہاں ارشد ندیم کی کامیابی نے پاکستان کو 40 برس بعد اولمپکس میں طلائی تمغے جیتنے والے ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا اور دنیا کی توجہ اس کی جانب مبذول کروائی وہیں ایسے سوالات بھی سامنے آئے کہ 20 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کا صرف ایک میڈل کیوں اور کیا پاکستان ایک سے زیادہ میڈلز جیت سکتا تھا؟پاکستان کی پیرس اولمپکس میں کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سات کھلاڑیوں نے چار کھیلوں میں حصہ لیا۔ ان میں تین پسٹل شوٹنگ، دو سوئمنگ، ایک خواتین کی سو میٹر کی دوڑ میں شامل تھے جبکہ ساتویں ارشد ندیم تھے۔ارشد ندیم کے علاوہ باقی چھ کھلاڑی اپنے اپنے مقابلوں میں پہلے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پائے۔

اولمپکس دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا مقابلہ مانا جاتا ہے۔ اس میں دنیا بھر کے چند بہترین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ ان مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرنے کو ہی ایک بڑا چیلنج اور بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ہر چار سال کے بعد منعقد ہونے والے ان مقابلوں تک پہنچنے کے لیے ایک کھلاڑی کو اس عرصے کے دوران اپنے کھیل میں بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لے کر جیتنا ہوتا ہے تاکہ وہ اچھی رینکنگ پر آ سکیں اور پھر اس کو برقرار رکھیں۔

انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے دو سال قبل لگ بھگ 12 پاکستانی ایتھلیٹس کے لیے ماہانہ سکالرشپ کا اعلان بھی کیا تھا۔ تقریباً 650 ڈالر ماہانہ کے اس سکالرشپ کا مقصد ان کھلاڑیوں کو پیرس اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں مدد کرنا تھا۔ ان میں ارشد ندیم اور اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون پسٹل شوٹر کشمالہ طلعت بھی شامل ہیں۔پیرس اولمپکس کے لیے جانے والے سات رکنی پاکستانی سکواڈ کے علاوہ ملک میں موجود مرد اور خواتین کھلاڑیوں کے پول پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کچھ نہ صرف اولمپکس تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ تمغہ جیتنے کے مضبوط امیدوار بھی بن سکتے تھے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر پیرس گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر کیوں نہیں آئے۔ یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے ان میں شامل ایسے دو کھلاڑیوں سے بات کی جو ماضی میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے سونے کے تمغے جیت چکے ہیں۔ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ اور پہلوان انعام بٹ کامن ویلتھ گیمز سمیت کئی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک یا ایک سے زیادہ مرتبہ تمغے جیت چکے ہیں اور 2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے والے نوح بٹ سے خاص طور پر پاکستان کی امیدیں جڑی تھیں۔نوح بٹ کون ہیں؟

نوح دستگیر بٹ کے مطابق وہ گذشتہ دو برس کے دوران عالمی مقابلوں میں حصہ ہی نہیں لے سکےپاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نوح بٹ نے چھوٹی ہی عمر میں ویٹ لفٹنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ نہ صرف جونیئر کامن ویلتھ گیمز کے چیمپیئن رہے بلکہ 390 کلو سے زیادہ وزن اٹھا کر ریکارڈ بھی قائم کیا۔تاہم نوح بٹ نے شہرت اس وقت حاصل کی جب سنہ 2022 کے کامن ویلتھ مقابلوں میں انھوں نے پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتا۔ اس مقابلے میں نوح بٹ نے سنیچ کیٹیگری میں 163 جبکہ کیلن اینڈ جرک میں 232 کلو وزن اٹھایا، مجموعی طور پر انھوں نے 405 کلو وزن لفٹ کیا۔خیال رہے کہ 109 کلو گرام پلس کی کیٹیگری میں سنیچ، کیلن اینڈ جرک اور مجموعی ویٹ تینوں میں یہ کامن ویلتھ گیمز کا ریکارڈ ہے جو اب بھی نوح بٹ کے پاس ہے۔ اس کیٹیگری سب سے زیادہ مجموعی ویٹ کا ورلڈ ریکارڈ 475 کلوگرام ہے۔حال ہی میں ازبکستان میں ہونے والے سٹرونگ مین 2024 کے مقابلے میں بھی نوح بٹ نے پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتا ہے۔

ان مقابلوں میں دنیا بھر سے 16 ممالک کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔اولمپکس مقابلوں کے آغاز کے چند روز قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوح بٹ نے بتایا تھا کہ ’میں زیادہ تر ان تمام کھلاڑیوں کے خلاف کھیل چکا ہوں اور ان میں زیادہ تر سے جیت چکا ہوں جو پیرس اولپمکس میں کھیل رہے ہوں گے۔‘نوح بٹ پیرس اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیوں نہ کر پائے؟ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گذشتہ دو برس کے دوران ’بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں حصہ ہی نہیں لے سکے جس کی وجہ سے ان کی رینکنگ اچھی نہیں بن پائی۔‘تاہم ایسا نہیں ہے کہ وہ ان مقابلوں میں جانا نہیں چاہتے تھے یا دانستہ طور پر انھوں نے رینکنگ بہتر بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں جا کر ویٹ لفٹنگ کرنے سے گریز کیا۔

ان کو پاکستان کی طرف سے ان مقابلوں کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا۔نوح بٹ کے حوالے سے پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ اور مقامی طور پر سوشل میڈیا پر کئی بیانات سامنے آئے ہیں۔ ان بیانات میں نوح بٹ کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کے پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں اور اسی وجہ سے وہ فیڈریشن کے ساتھ رجسٹر نہیں ہوئے اور نتیجتاً انھیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے بھیجا گیا نہ عالمی اولمپک کمیٹی کا سکالرشپ استعمال کرنے دیا گیا۔حال ہی میں مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز پر بات چیت کرتے ہوئے نوح بٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ فیڈریشن نے انھیں مقابلوں میں حصہ نہیں لینے دیا اور انھیں رینکنگ کے لیے ہونے والے پانچ مقابلوں کے لیے نہیں بھجوایا گیا۔

نوح بٹ کا کہنا تھا کہ انھیں ایشیائی کھیلوں اور ایشین چیمپیئن شپ سے بھی باہر کر دیا گیا۔ تعلقات کی خرابی کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ’فیڈریشن چاہتی ہے کہ میں اپنی تمام تر کامیابی کا صلہ ان کو دوں جبکہ میری کامیابی کا صلہ میرے والد کو جاتا ہے جنھوں نے مجھے تیاری کروائی تو میں تو اس ہی کو کریڈٹ دوں گا جس کا بنتا ہے۔‘نوح بٹ کے اپنے گھر میں ہی انھوں نے جم بنا رکھا ہے جہاں وہ ٹریننگ کرتے ہیں، ان کے والد دستگیر بٹ خود بھی نیشنل چیمپیئن اور جنوبی ایشیا کے چیمپیئن رہ چکے ہیں۔

وہ ہی نوح بٹ کے ٹرینر بھی ہیں۔پیرس اولمپکس سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بھی نوح بٹ نے بتایا تھا کہ انھیں ویٹ لفٹر بنانے اور تمام تر کامیابیاں دلوانے میں ان کے والد کی محنت ہے۔’میرے والد صاحب نے اپنی جائیداد بیچ کر بھی ویٹ لفٹنگ پر لگائی ہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا ہم نے اپنے طور پر سب کچھ کیا ہے۔‘تاہم اس وقت اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کر پانے پر نوح بٹ کا کہنا تھا کہ ’ہماری فیڈریشن سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ ہمارے بہت سے کھلاڑی ڈوپنگ میں پکڑے گئے ہیں جس کے بعد فیڈریشن پر پابندی لگی۔

جب فیڈریشن پر ہی پابندی ہے تو پھر ہم مقابلوں کے لیے کیسے جاتے سو اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کر پائے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد انھیں وائلڈ کارڈ پر بھی انٹری نہیں مل پائی۔نوح بٹ کا کہنا تھا کہ وہ اولمپکس جیسے مقابلوں کے لیے مکمل تیار تھے اور ہمیشہ رہے ہیں لیکن کوالیفائنگ مقابلوں کے لیے بھیجا جانا ان کے اختیار میں نہیں ہے۔نوح بٹ کے الزامات پر پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے نائب صدر امجد امین بٹ کا کہنا ہے کہ ’دو سال سے وہ یہ بات کر رہے ہیں اور وہ ہمارا بچہ ہے۔‘ان کے مطابق ’پاکستان سپورٹس بورڈ نے پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پر پابندی لگا دی ہے اور ایک عبوری کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

جب فیڈریشن کو معطل کر کے عبوری کمیٹی بنا دی تو اس وقت سے فیڈریشن کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔‘نوح بٹ کے مطابق بین الااقوامی فیڈریشن ملکوں کی قومی فیڈریشنز کے ذریعے ہی کھلاڑیوں کی رجسٹریشن کو مانتی ہیں تاہم امجد بٹ کا کہنا ہے کہ ’(عبوری کمیٹی کی تشکیل کے بعد) اب کھلاڑی کی مرضی ہے کہ وہ فیڈریشن کے ساتھ رجسٹر ہو یا کمیٹی کے ساتھ، ہم انھیں بھیجنے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔

2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتنے والے نوح بٹ سے خاص طور پر پاکستان کی امیدیں جڑی تھیں’عبوری کمیٹی کے پاس صرف انتظامی اختیارات تھے‘دوسری جانب پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے بنائی گئی عبوری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر حفیظ ظفر اقبال نے نوح بٹ کے الزامات کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نوح بٹ نے جو الزامات لگائے ہیں وہ 95 فیصد سے زیادہ بالکل درست ہیں اور میں ان کی شکایات کی توثیق کرتا ہوں۔‘تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’نوح بٹ کی شکایات عبوری کمیٹی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے عہدیداران کے خلاف ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ نوح بٹ کی شکایات اس فیڈریشن کے خلاف ہیں جسے پاکستان سپورٹس بورڈ نے معطل کر دیا تھا۔ ڈاکٹر حفیظ کے مطابق انٹرنیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے اس حوالے سے رواں برس دو اگست کو ایک فہرست بھی جاری کی ہے جس میں پاکستان کے ان افراد کے نام شامل ہیں جنھیں معطل کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ ’کچھ افراد کو آرگنائزڈ ڈوپنگ کے الزام میں نوٹیفائی بھی کیا گیا ہے جس سے ملک کی بدنامی ہوئی۔‘خیال رہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ نے 2022 میں نوح بٹ کے دولتِ مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے کے چند گھنٹے بعد ہی ملک کی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کو معطل کر دیا تھا اور اس کی وجوہات میں 2020 سے 2022 کے دوران پاکستانی ویٹ لفٹرز کے مثبت ڈوپ ٹیسٹس یا ڈوپ ٹیسٹس کے لیے نمونے دینے سے انکار کے معاملات بھی شامل تھے۔پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور ترجمان شاہد اسلم کے مطابق ’بین الاقوامی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے پاکستان میں انٹرنیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعے پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے پاس رجسٹرڈ کھلاڑیوں کے ڈوپنگ ٹیسٹ کیے تھے جس میں یہ بات سامنے آئی کے فیڈریشن کے عہدیداران اور کھلاڑی اینٹی ڈوپنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق کہا گیا کہ ’کچھ کھلاڑی ڈوپنگ کر رہے تھے جبکہ کچھ عہدیداران ڈوپنگ کروانے میں ملوث تھے۔‘پاکستان میں اس وقت ویٹ لفٹنگ کے معاملات دیکھنے والی عبوری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ جس کمیٹی کے وہ رکن ہیں اس کے پاس صرف انتظامی اختیارات تھے اور معطل کی گئی فیڈریشن کا عالمی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن سے الحاق اب بھی برقرار ہے۔’عبوری کمیٹی کے پاس انتظامی اختیارات تھے لیکن بدقسمتی سے جس فیڈریشن کو معطل کیا گیا وہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے منسلک ہے اور اسی تعلق کے باعث انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے انھیں معطل نہیں کیا کیونکہ ان کا اصول ہے کہ اگر کسی فیڈریشن کا مقامی اولمپک فیڈریشن سے الحاق ہو تو انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریشن اس کا احترام کرتی ہے اسی لیے ان کا انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریش سے الحاق ابھی تک برقرار ہے۔‘بی بی سی نے جب یہ جاننے کے لیے کہ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کو پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے معطل کیے جانے کے بعد عبوری کمیٹی کو دو سال تک اتنا بااختیار کیوں نہیں بنایا گیا کہ وہ کھلاڑیوں کو بین الاقوامی مقابلوں میں بھیج سکے، سپورٹس بورڈ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریشن اور انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن کھلاڑیوں کی نامزدگی پاکستان ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن سے ہی لیتی ہے اور چونکہ وہ معطل تھی اوران کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ رواں ماہ کے آغاز پر ہی آیا ہے تو اس سے پہلے سپورٹس بورڈ کے پاس عبوری کمیٹی کو مزید اختیار دینے یا معطل شدہ کمیٹی پر اثر انداز ہونے کا اختیار نہیں تھا۔شاہد اسلم کے مطابق ’اب انٹرنیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے فیصلے کے بعد فیڈریشن کے عہدیداران اور کھلاڑیوں کو سخت سزائیں ملی ہیں جس کے بعد اب نئے انتخابی عمل کے ذریعے پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے نئے عہدایداران کے ساتھ اسے فعال کیا جائے گا۔،

انعام بٹ اب بھی اپنی روزانہ کی ٹریننگ دیسی اکھاڑے میں ہی کرتے ہیںانعام بٹ اور پاکستان کی ریسلنگانعام بٹ پاکستان کے لیے ریسلنگ میں کئی میڈلز جیت چکے ہیں جن میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں سونے کے دو تمغے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ورلڈ بیچ ریسلنگ مقابلوں میں بھی کئی گولڈ میڈل جیت چکے ہیں۔انعام بٹ بھی صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہیں ان کا اکھاڑہ بھی ہے جہاں وہ ٹریننگ کرتے ہیں۔ان سمیت پاکستان سے لگ بھگ چھ پہلوانوں نے پیرس اولپمکس کے لیے کوالیفائی کرنے کی کوشش کی تاہم وہ کوالیفائنگ مقابلوں میں ہار گئے۔ انعام بٹ زخمی ہونے کی وجہ سے بشکیک اور بعد میں استنبول میں ہونے والے آخری کوالیفائنگ مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔انعام بٹ پاکستانی پہلوانوں کو دستیاب سہولیات کے معیار اور فنڈز کی کمی کو ان کے اولمپکس میں جگہ نہ بنا پانے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔’پورے ملک میں ایک بھی جگہ ایسی نہیں جہاں ریسلنگ میٹ پورا آ سکے‘گوجرانوالہ میں اپنے اکھاڑے میں ٹریننگ کے دوران بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انعام بٹ نے بتایا کہ پاکستان میں ریسلنگ کے لیے موجود سہولیات اور دستیاب فنڈز انتہائی غیر موزوں ہیں۔’پورے ملک میں ایک بھی جگہ ایسی نہیں جہاں ہمارا ریسلنگ کا میٹ پورا آ سکے۔

ہم بڑے مقابلوں کے لیے ٹریننگ اس وقت کرتے ہیں جب چند دنوں کے لیے کیمپس لگتے ہیں۔ چند دنوں کے کیمپس سے آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہمارے ریسلر اولپمکس کے لیے کوالیفائی کریں گے۔‘انعام بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ریسلنگ کی فیڈریشن کا بجٹ محض 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس میں اس نے ریسلرز اور آفیشلز کی رجسٹریشن فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے اور کھلاڑیوں کو مقابلوں میں شرکت کے لیے باہر بھی بھیجنا ہوتا ہے۔’اتنے کم پیسوں میں وہ ریسلرز کو جتنے مقابلوں میں بھجوا سکتی ہے بھجواتی ہے۔ زیادہ مقابلوں میں وہ ہمیں نہیں بھجوا پاتی۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ریسلرز کے لیے ٹریننگ اکیڈمیز اور ٹریننگ کرنے کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں چھوٹی عمر سے ریسلرز کو تربیت دی جا سکے۔

پہلوانی کا اکھاڑا مٹی کھود کر زمین کو نرم کر کے بنایا جاتا ہے’اکھاڑے اور میٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘پاکستان میں پہلوانوں کے عام طور پر مقابلوں کے مناظر آج بھی اکھاڑوں ہی سے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر بڑے اکھاڑے پنجاب میں گوجرانوالہ اور لاہور جیسے شہروں میں موجود ہیں۔ انعام بٹ بھی اب تک اپنی روزانہ کی ٹریننگ اکھاڑے میں کرتے ہیں۔اکھاڑا مٹی کو کھود کر زمین کو نرم کر کے بنایا جاتا ہے۔ تاہم اولمپکس اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں کشتی کا کھیل خاص طور پر بنے میٹ پر ہوتا ہے۔

انعام بٹ سمجھتے ہیں کہ ’اکھاڑے اور میٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اکھاڑے سے بنیادی داؤ پیچ سیکھ سکتے ہیں لیکن میٹ کی گیم بہت مختلف ہے۔ آپ جب تک میٹ کی باقاعدہ ٹریننگ نہیں کریں گے آپ اس پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ٹریننگ کا فقدان ہی پاکستان کے پہلوانوں کو اولپمکس جیسے مقابلوں سے دور رکھ رہا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کے ریسلرز کو اولپکس میں کوالیفائی کرنے کے لیے بیرون ملک ٹریننگ کی ضرورت ہے۔’اس کی وجہ ہے۔ جب میں مقامی سطح پر کھیلوں گا میں اپنی ٹریننگ کا معیار بہتر نہیں کر سکوں گا کیونکہ یہاں میری ویٹ کیٹیگری میں بہت کم ایسے ریسلرز ہوں گے جو مجھے اچھا مقابلہ دے پائیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب پاکستانی پہلوان جا کر ٹریننگ کریں گے، اپنے سے بہتر پہلوانوں کا مقابلہ کریں گے تو ان کا معیار بہتر ہو گا اور وہ بین الاقوامی مقابلوں میں جیت پائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں حکومت کی مدد اور فیڈریشن کے تعاون سے گوجرانوالہ میں ایک ریسلنگ سنٹر تعمیر کیا گیا ہے جو آخری مراحل میں ہے۔ اس میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈز کے مطابق میٹ لگایا جائے گا۔ ساتھ ہی ٹریننگ کی سہولیات اور جم بنے گا۔انعام بٹ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان میں ریسلنگ کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی سہولت ہو گی جس کے بننے سے ریسلنگ میں دلچسپی رکھنے والوں کو انٹرنیشنل سطح کی ٹریننگ کرنے کا موقع ملے گا۔انعام بٹ کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی اور سہولیات کے فقدان پر بات کرتے ہوئے ترجمان سپورٹس بورڈ شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ صرف 15 لاکھ روپے کے فنڈز فراہم کرنے کی بات درست نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سہولیات کی بات کی جائے تو پاکستان سپورٹس بورڈ نے لاہور میں ریسلرز کا مسلسل کیمپ لگائے رکھا ہے جہاں میٹ بھی موجود تھا، اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے لیے مخصوص غذا اور ٹریننگ بھی تھی۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ ایک اچھے پہلوان ہیں مگر اگر ان کے کھیل کا جائزہ لیا جائے تو ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگرچہ انھوں نے کامن ویلتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا ہے لیکن وہ بین الاقوامی مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہیں کر پاتے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی واضح مثال وسطی ایشیا میں اولمپکس مقابلوں کے کوالیفائنگ مرحلے ہیں جن میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی مقابلوں میں وسطی ایشیا کے کھلاڑی اکثر ان کھیلوں میں زیادہ بہتر رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں